درحقیقت حضور کی بعثتیں دو ہیں. ایک بعثت خصوصی، اہل عرب یعنی بنی اسمٰعیل کی طرف ہے، جن میں سے نبی اکرم خود تھے. جن کی زبان میں حضور پر اللہ کا کلام نازل ہوا. دوسری بعثت عمومی ہے ’’اِلَی النَّاسِ کَافَّۃً ‘‘ (۱یعنی پوری نوعِ انسانی کی طرف بالعموم. یہ اس وقت موضوعِ بحث نہیں. البتہ جن کی طرف رسول اللہ کی بعثت خصوصی تھی تو ان پر دعوت و تبلیغ، وعظ و نصیحت، انذار و تبشیر، تذکیر و موعظت کے ذریعہ سے حضور رسالت کی تمام ذمہ داریاں بنفس نفیس ادا فرما چکے تھے.

اس طرح ان پر اتمامِ حجت کیا جا چکا تھا، لہذا ان کے لئے اب رعایت کا کوئی سوال نہیں تھا. ان پر اللہ کا جو عذاب آیا اس کی پہلی قسط غزوۂ بدر کی صورت میں ظاہر ہوئی، جہاں ان کے بڑے بڑے سردار کھجور کے کٹے ہوئے تنوں کی مانند پڑے ہوئے تھے. انہی میں ابوجہل تھا، عتبہ بن ابی معیط تھا، انہی میں عتبہ بن ربیعہ اور اس کا بھائی اور بیٹا بھی تھے.الغرض ان کے اکثر نامی گرامی سردار اس غزوہ میں کھیت رہے تھے. انہی میں نضربن حارث بھی تھا جو پکڑا (۱) اشارہ ہے اس خطبے کی طرف جو آپ نے آغاز دعوت میں بنی عبدالمطلب کو جمع کر کے ارشاد فرمایا تھا. اس کے الفاظ ہیں اِنِّی لَرَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُم خَاصَّۃً وَاِلَی النَّاسِ کَافَّۃً ’’بے شک میں اللہ کا رسول ہوں خصوصاً تمہاری طرف اور بالعموم تمام نوع انسانی کی طرف‘‘. 

(انساب الاشراف للبلاذری) گیا تھا اور بعد میں حضور نے اسے قتل کرایا تھا. پھر مختلف غزوات میں بہت سے صنادید مشرکین بتدریج اس دنیا میں مسلمانوں کے ہاتھوں مقتول ہو کر واصل جہنم ہوتے رہے.