سورۃ التوبہ کی ابتدائی چھ آیات میں درحقیقت عرب سے شرک کے مکمل خاتمہ اور قلع قمع (Mopping up Operation) کا اعلان عام ہے کہ اب اہل عرب میں سے مشرکین کیلئے کوئی رعایت نہیں ہے، اب ان سے کوئی نئی صلح نہیں ہوگی. صلح کے جو معاہدے پہلے ہو چکے ہیں، ان میں سے کسی کی بھی مدت ختم ہو جانے کے بعد آئندہ تجدید نہیں ہوگی. کسی نے صلح توڑ دی، معاہدہ کی خلاف ورزی کی تو وہ اسی وقت ختم اور کالعدم ہو جائے گی. پھر یہ کہ چار مہینے گزرنے کے بعد پورے عرب میں مشرکین کا قتل عام شروع ہو جائے گا، کسی کی کوئی رُو رعایت نہیں کی جائے گی، کسی کی جان بخشی نہیں کی جائے گی، سوائے اس کے جو ایمان لے آئے. دل کا حال اللہ جانتا ہے، اس کا حساب وہ عزوجل خود لے گا.یہاں اسے اپنے ایمان کا اقرار و اعلان کرنا ہوگا، کلمۂ شہادت ادا کرنا ہوگا، نماز قائم کرنی ہوگی، زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی. جو بھی ان شرائط کو پورا کر دے گا اس کا راستہ چھوڑ دیا جائے گا یعنی جو لوگ نظامِ اسلام کو قبول کر لیں اور مسلم ہو جائیں، ان کے جان و مال کی حفاظت کی جائے گی. رہا یہ معاملہ کہ ان کے دلوں میں ایمان داخل ہوا یا نہیں، اس کا فیصلہ اللہ کرے گا. کیونکہ دلوں کا حال اسی ’’عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ ‘‘ کو معلوم ہے. چنانچہ اسی مضمون پر مشتمل رسول اللہ کی بڑی پیاری حدیث ہے جو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے مروی ہے. وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ  نے فرمایا:

اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَشْھَدُوْا اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاَنَّ مُحَمَّداً رَّسُوْلُ اللہِ وَیُـقِیْمُوا الصَّلَاۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکَاۃَ فَاِذَا فَعَلُوا ذٰلِکَ عَصَمُوْا مِنِّیْ دِمَاءَ ھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ اِلَّا بِحَقِّ الْاِسْلَامِ وَحِسَابُھُمْ عَلَی اللہِ عَزَّوَجَلَّ (بخاری) 
’’مجھے (اللہ کی طرف سے) یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں حتیٰ کہ وہ لا اِلٰہ اِلا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں. پس جب وہ یہ (کام) کریں گے تو وہ مجھ سے اپنے خون اور اپنے اموال بچا لیں گے، سوائے اس کے کہ کوئی اسلام کے قانون کی زد میں آ جائے (باقی رہا) ان کا حساب تو وہ اللہ کے ذمے ہے‘‘.

معلوم ہوا کہ مشرکین مکہ کی جان بخشی کی صورت اس کے سوا کوئی نہیں تھی کہ وہ کلمۂ شہادت ادا کریں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں.