نظم کی اہمیت کا ایک اہم واقعہ

سورۃ التوبہ کی ابتدائی آیات کے نازل ہونے سے پہلے حج کے لئے قافلہ روانہ ہو چکا تھا اور رسول اللہ  نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو امیر حج مقرر فرمایا تھا. اب ان آیات کے نزول کے بعد حضور نے حضرت علیؓ کو مکہ روانہ فرمایا اور آنجناب ؓ کو یہ ذمہ داری سپرد کی کہ حج کے موقع پر جبکہ میدانِ عرفات میں پورے عرب کے کونے کونے سے آئے ہوئے لوگ جمع ہوں گے، جن میں مشرکین بھی ہوں گے تو اس مجمع میں یہ آیات میرے ذاتی نمائندے کی حیثیت سے کھڑے ہو کر سنا دینا تاکہ تمام اہل عرب کو معلوم ہو جائے کہ اشہر حرم کے بعد اللہ تعالیٰ کے حکم سے مشرکین عرب سے کیا معاملہ ہوگا! یہ چھ آیات اور نبی اکرم کی طرف سے تفویض کردہ ذمہ داری لے کر حضرت علیؓ روانہ ہو گئے اور راستہ ہی میں قافلۂ حج کو جا لیا.

جب وہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پاس پہنچے تو حضرت ابوبکرؓ نے سلام و دعا کے بعد دریافت فرمایا ’’اَمِیْرٌ اَوْ مَاْمُوْرٌ؟‘‘ یعنی یہ بات واضح کر دیجئے کہ رسول اللہ  نے آپ کو امیر بنا کر بھیجا ہے یا مامور بنا کر؟کسی اسلامی جماعت میں کسی بھی فرد کے لئے دو ہی صورتیں ممکن ہیں، یا تو وہ خود صاحب امر یعنی امیر ہوگا، بصورت دیگر کسی امیر کے تابع یعنی مامور ہوگا.چنانچہ حضرت ابوبکرؓ نے سوال کیا کہ ’’اَمِیْرٌ اَوْ مَاْمُوْرٌ؟‘‘ یعنی ایک شکل یہ بھی ہو سکتی ہے کہ حضور نے آپ کو امیر بنا دیا ہو، تو آیئے چارج سنبھالئے، اپنی پوزیشن میں آئیے، تاکہ مجھے یہ معلوم ہو جائے کہ میں اب مامور ہوں اور میں آپ کا حکم سنوں اور مانوں. اور اگر دوسری صورت ہے کہ میں ہی امیر حج ہوں اور آپ مامور ہیں تو یہ پوزیشن بھی واضح ہو جانی چاہئے. حضرت علیؓ نے جواب میں فوراً کہا مَاْمُوْرٌ یعنی میں امیر بن کر نہیں آیا میں مامور ہی ہوں، اس قافلہ حج کے امیر آپ ہی ہیں. البتہ رسول اللہ  نے میرے ذمہ یہ کام سپرد کیا ہے کہ آپ ؓ کی روانگی کے بعد جو چھ آیات نازل ہوئی ہیں ان کا اعلانِ عام حج کے مجمع میں رسول اللہ کے نمائندہ کی حیثیت سے کردوں.

یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ ہی بحیثیت امیر قافلہ حضور کی جانب سے اعلان فرما سکتے تھے تو یہ ذمہ داری خصوصیت کے ساتھ حضرت علیؓ کے سپرد کیوں کی گئی؟ دراصل اس کی وجہ یہ ہے کہ عرب میں دستور تھا کہ کوئی اہم اور خاص اعلان کسی قبیلہ کے سردار کی عدم موجودگی میں اس کا کوئی قریب ترین عزیز ہی کیا کرتا تھا جو اسی قبیلہ سے تعلق بھی رکھتا ہو. ایسی صورت میں اس اعلان کی اہمیت مسلم ہوتی تھی. اگرچہ رشتہ داری کے اعتبار سے حضرت ابوبکرؓ حضور کے خسر تھے، لیکن آپ ؓ بنوہاشم میں سے نہیں تھے جبکہ ابھی تک قبائلی نظام بڑی حد تک باقی 
(Intact) تھا. چنانچہ حضرت علیؓ چونکہ آپ کے قریب ترین عزیز بھی تھے اور قبیلہ بنی ہاشم سے تعلق رکھتے تھے لہذا یہ ذمہ داری حضرت علیؓ کے سپرد کی گئی.