اس کے بعد چھٹی آیت میں مشرکین کے لئے ایک رعایت کا ذکر ہے. فرمایا: 

وَ اِنۡ اَحَدٌ مِّنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ اسۡتَجَارَکَ فَاَجِرۡہُ حَتّٰی یَسۡمَعَ کَلٰمَ اللّٰہِ ثُمَّ اَبۡلِغۡہُ مَاۡمَنَہٗ ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ قَوۡمٌ لَّا یَعۡلَمُوۡنَ ٪﴿۶﴾ 

’’ اور (اے نبی ) اگر مشرکین میں سے کوئی شخص پناہ مانگ کر تمہارے پاس آنا چاہے (تاکہ اللہ کا کلام سنے) تو اسے پناہ دے دیجئے یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سن لے، پھر اسے اس کے مامن یعنی مستقل قیام گاہ تک پہنچا دیجئے. یہ اس لئے کہ یہ لوگ علم نہیں رکھتے‘‘. یعنی ان کو اسلام کے پیغام کی پوری واقفیت نہیں ہے.

آیت مبارکہ کے ترجمہ ہی سے پوری بات سمجھ میں آ جاتی ہے. تاہم مفہوم یہ ہے کہ مہلت کے چار مہینوں کے اندر کوئی مشرک دین کو جاننے اور سمجھنے کے لئے پناہ طلب کرے تو اسے پناہ دی جائے، اسے دین سمجھایا جائے. اگر اس کام میں چار ماہ کی مدت ختم ہو جائے اور وہ ایمان نہ لائے تو اس کو قتل نہیں کیا جائے گا بلکہ اسے اس کی قیام گاہ تک پہنچا دیا جائے گا. وہاں پہنچ کر وہ جو فیصلہ کرے اس کے مطابق اس کے ساتھ معاملہ کیا جائے گا. ایمان لے آئے تو چھوڑ دیا جائے گا، ترکِ وطن کرنا چاہے تو راستہ نہیں روکا جائے گا. دونوں اختیارات میں سے کوئی بھی اس کے لئے قابل قبول نہ ہو تو اب وہ واجب القتل ہوگا.