مشرکین کے لئے بیت اللہ میں داخلہ کی ممانعت

مشرکین کے لئے آئندہ حج کرنے اور بیت الحرام میں داخل ہونے کی ممانعت کا حکم پہلے نازل ہو چکا تھا: 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الۡمُشۡرِکُوۡنَ نَجَسٌ فَلَا یَقۡرَبُوا الۡمَسۡجِدَ الۡحَرَامَ بَعۡدَ عَامِہِمۡ ہٰذَا (التوبہ:۲۸)
’’اے اہل ایمان، مشرکین ناپاک ہیں، لہذا اس سال کے بعد یہ مسجد حرام کے قریب نہ پھٹکنے پائیں ‘‘

بیت اللہ کی تطہیر اب مکمل ہو گئی. لہذا آئندہ مشرکین کو نہ حج کی اجازت ہوگی نہ وہ حرم شریف میں داخل ہو سکیں گے.

میں انقلابِ محمدی علیٰ صاحبہ الصلوٰۃ والسلام کے اس مرحلے کو 
Mopping up Operation سے تعبیر کرتا ہوں. یہ وہ مرحلہ ہے کہ جب ہر نوع کی مزاحمت و رکاوٹ (Resistance) ختم کر کے اور آخری وارننگ دے کر جزیرہ نمائے عرب کی حد تک اسلامی انقلاب کی تکمیل کر دی گئی. اس بات کا اشارہ سورۃ المائدہ میں بھی ملتا ہے، جہاں فرمایا گیا: 

اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا ؕ (المائدہ:۳)
’’ آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے‘‘.

یہ وہ آیت مبارکہ ہے جس کے متعلق یہودی بڑی حسرت کے ساتھ کہا کرتے تھے کہ اگر اس مفہوم کی کوئی آیت ہمیں عطا ہو جاتی تو ہم اس کے یومِ نزول کو اپنی سالانہ عید کے طور پر مناتے.

سورۃ المائدہ کی یہ آیت نہایت اہم، عظیم اور مہتم بالشان مطالب و مفاہیم کی حامل ہے. کیونکہ اس آیت میں تکمیل دین کا اعلان ہے. یعنی نوعِ انسانی کو ایک ایسا مستقل اور بھرپور نظامِ زندگی عطا کر دیا گیا ہے کہ جس میں قیامت تک کے لئے بنی نوعِ انسان کے جملہ انفرادی و اجتماعی مسائل کا نہایت معتدل تفصیلی یا اصولی حل موجود ہے. پھر اسی آیت میں اتمامِ نعمت کا اعلان بھی ہے. یعنی نہ صرف یہ کہ دین مکمل ہو گیا بلکہ نعمت کی تکمیل بھی ہو گئی. اور نعمت سے یہاں مُراد ہے سلسلۂ وحی اور نبوت و رسالت. نبوت و رسالت کا بنیادی مقصد لوگوں تک اللہ کے دین کو پہنچانا اور اپنے قول و فعل سے لوگوں پر حجت قائم کرنا ہے. 
رسول اللہ  نے بنفس نفیس یہ کام کر کے دکھایا اور جزیرہ نمائے عرب کی حد تک دین کو بالفعل غالب فرما کر گویا اتمامِ حجت کا حق ادا کر دیا. اور اس طرح سلسلۂ نبوت و رسالت بھی اپنے کمال کو پہنچ گیا. اب چونکہ اللہ کا آخری اور مکمل پیغام بنی نوعِ انسان تک پہنچ گیا تھا اور اس آخری وحی کی حفاظت کا ذمہ بھی اللہ نے لے لیا تھا اور دوسری جانب حضور کی ذات میں سلسلۂ رسالت بھی اپنے کمال کو پہنچ چکا تھا اور اس میں مزید کسی اضافے (improvement) کی گنجائش نہیں تھی لہذا سلسلۂ وحی اور نبوت و رسالت کو اب ہمیشہ کے لئے منقطع کر دیا گیا اس پہلو سے یہ آیت اتمام و اختتامِ نبوت و رسالت پر بھی دلالت کرتی ہے.