فتح مکہ اور معرکۂ حنین و اوطاس نیز محاصرۂ طائف کے بعد اہل طائف خود ہی مطیع ہو کر مشرف باسلام ہو گئے تھے.اسلامی انقلاب کی تکمیل ہو چکی تھی اور نقشہ یہ بن گیا تھا کہ جزیرہ نمائے عرب کی حد تک اللہ کا دین دوسرے تمام باطل نظام ہائے حیات پر غالب و حکمران ہو گیا تھا.

نبی اکرم مدینہ منورہ واپس تشریف لے آئے. عرب کے جن قبائل نے اُس وقت تک اسلام قبول نہیں کیا تھا ان میں مشاورتیں منعقد ہوئیں اور مدینہ میں ان کے وفود کا تانتا بندھ گیا. ہر روز کسی نہ کسی قبیلہ کا وفد آکر سر اطاعت خم کرتا تھا اور اسلام قبول کر لیتا تھا. گویا کہ اسلام کے خلاف مزاحم قوتوں کا بڑی تیزی سے خاتمہ ہوتا جا رہاتھا.

اسلام کا اصل مفہوم ہی فرمانبرداری اور اطاعت قبول کرنا ہے. فارسی میں اس مفہوم کو ’’گردن نہادن‘‘ اور انگریزی میں 
to give up resistance اور to surrender کے الفاظ سے تعبیر کیا جاتا ہے. چنانچہ اس کیفیت کو سورۃ النصر میں یوں بیان کیا گیا ہے:

اِذَا جَآءَ نَصۡرُ اللّٰہِ وَ الۡفَتۡحُ ۙ﴿۱﴾وَ رَاَیۡتَ النَّاسَ یَدۡخُلُوۡنَ فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ اَفۡوَاجًا ۙ﴿۲﴾ ’’جب پہنچ چکی اللہ کی مدد اور (حاصل ہو گئی) فتح تو تم نے دیکھا لوگوں کو اللہ کے دین میں داخل ہوتے فوج در فوج‘‘.

اس طرح جزیرہ نمائے عرب میں بسنے والے تمام عرب دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے. انقلاب کے ان چھ کے چھ مراحل سے گزرنے کے بعد انقلاب محمدی علیٰ صاحبہ الصلوٰۃ والسلام کی تکمیل ہو گئی.