دوسرے منکرین و کفار کا معاملہ

اندرونِ جزیرہ نمائے عرب جو غیر اسماعیلی آباد تھے، یہ یہود اور نصاریٰ تھے. یہ بنی اسماعیل میں سے نہیں تھے. اس طرح حضور کے ہم نسل نہیں تھے. حضرت اسمٰعیلؑ کے چھوٹے بھائی حضرت اسحق ؑ کے بیٹے حضرت یعقوبؑ سے، جن کا لقب اسرائیل تھا، جو نسل چلی وہ اسرائیلی یا بنی اسرائیل کہلائی. یہود و نصاریٰ اسی نسل سے تھے. اگرچہ حضرت ابراہیمؑ پر جا کر یہ دونوں نسلیں مل جاتی ہیں، لیکن چونکہ اسی وقت سے حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق علیہما السلام کی رہائش گاہوں میں اتنا بعد مکانی تھا کہ جس کے باعث حضرت ابراہیمؑ کی ذُرِیت دو علیحدہ نسلوں کی حیثیت سے پھیلی.لہذا اسی دور سے یہ جدا جدا نسلیں شمار ہوتی چلی آ رہی ہیں. پھر بنی اسرائیل کے پاس پہلے آسمانی کتابیں اور صحیفے موجود تھے. یہود کے پاس شریعت کا ایک ڈھانچہ بھی موجود تھا. چاہے ان چیزوں میں تحریف ہو چکی تھی لیکن بہرحال وہ اہل کتاب تھے اور قرآن مجید نے ان کی اس حیثیت کو تسلیم کیا ہے. لہذا ان کی Category (۱کو علیحدہ رکھا گیا اور ان کے متعلق سورۂ توبہ کی آیت ۲۹ میں احکامات آ گئے. فرمایا: 

قَاتِلُوا الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ لَا بِالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ لَا یُحَرِّمُوۡنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَ لَا یَدِیۡنُوۡنَ دِیۡنَ الۡحَقِّ مِنَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ حَتّٰی یُعۡطُوا الۡجِزۡیَۃَ عَنۡ ‌یَّدٍ وَّ ہُمۡ صٰغِرُوۡنَ ﴿٪۲۹﴾ (۱) درجہ بندی ’’(اے مسلمانو!) قتال کرو اہل کتاب میں سے ان لوگوں سے جو نہ اللہ کو مانتے ہیں (جیسا کہ اس کے ماننے کا حق ہے) اور نہ روزِ آخرت کو اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے حرام کیا اور نہ دین حق (اسلام) کو قبول کرتے ہیں. (ان سے جنگ کرو) یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں‘‘.

بنی اسماعیل کے لئے تو دو اختیارات میں سے ایک قبول کرنا تھا کہ یا ایمان لائیں یا قتل ہونے کے لئے تیار رہیں. اس کے نتیجہ میں تیسرا اختیار (option) از خود بن گیا تھا کہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں.عرب میں رہتے ہوئے کوئی تیسرا option ان کے لئے نہیں تھا. عرب میں کسی نوع کی غیراللہ کی پرستش نہیں ہو سکتی، چاہے وہ اصنام پرستی ہو، چاہے مظاہر قدرت کی پرستش. لیکن بنی اسرائیل کے ساتھ معاملہ مختلف رکھا گیا. انہیں رعایت دی گئی اور ان کے سامنے تین صورتیں رکھی گئیں. پہلی یہی کہ ایمان لے آؤ تو ہمارے برابر کے بھائی ہو، کوئی مغائرت باقی نہیں رہے گی، حقوق و فرائض میں سب مکمل طور پر مساوی ہوں گے. یہ منظور نہیں تو دوسری صورت یہ ہے کہ چھوٹے بن کر رہو. دین حق کے غلبہ کو تسلیم کرو، نظام اجتماعی (Law of the land) اللہ کے دین کے مطابق نافذ و رائج ہوگا اور تمہیں اس کی اطاعت کرنی ہوگی اور اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کرنا ہوگا. دینُ اللہ کے تحت تم یہودی یا عیسائی ہو کر رہ سکتے ہو. تمہارے احوال شخصیہ (Personal Law) میں اسلامی حکومت کوئی مداخلت نہیں کرے گی. اس کی اجازت ہے. (۱لیکن تم چھوٹے بن کر اور جزیہ ادا کر کے اسلامی حکومت کے تحت رہ سکتے ہو.اور اگر یہ بھی منظور نہ ہو تو پھر تیسری صورت قتال کی ہے. اس کے سوا چوتھی شکل کوئی اور نہیں. اس میں از خود یہ بات بھی مضمر ہے کہ اسلامی حکومت کے دائرۂ اختیار سے نکل کر کسی اور جگہ جا کر آباد ہو سکتے ہو.

سورۃ التوبہ کی یہی وہ آیت ہے جو اسلامی انقلاب کے بین الاقوامی مرحلہ میں بنیاد (۱) یہ بات سورۃ البقرہ میں بایں الفاظ پہلے فرما دی گئی تھی کہ لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ بنی ہے کہ بعد میں خلافت راشدہ کے دور ان جب صحابہ کرامؓ کی فوجیں اعلائے کلمۃ اللہ اور اظہارِ دین حق کے لئے نکلتیں تو وہ ہمیشہ یہی تین شرائط (options) پیش کرتے تھے. (i) ایمان لے آؤ، تم ہمارے برابر کے بھائی ہو گے. تمہاری تمام املاک جوں کی توں تمہاری ملکیت میں رہیں گی، ہم کسی کو ہاتھ تک نہیں لگائیں گے. ہمارا تمہارا معاملہ ہر لحاظ اور ہر اعتبار سے بالکل مساوی ہو جائے گا.(ii) اگر یہ منظور نہیں کرتے تو تمہیں چھوٹے بن کر رہنا پڑے گا. غالب دین اللہ کا ہو گا، حکومت اللہ کی ہو گی، تم ماتحت بن کر اور جزیہ دے کر خواہ عیسائی بن کر رہو، یہودی رہو، مجوسی رہو، ہندو رہو، سکھ رہو، جو چاہو رہو اس کی اجازت ہوگی. تمہارے احوالِ شخصیہ میں اسلامی حکومت قطعًا کوئی مداخلت نہیں کرے گی، لیکن تمہیں چھوٹے ہو کر اور اللہ کے دین کو بحیثیت نظامِ اجتماعی ذہنًا قبول کر کے اسلامی حکومت میں رہنے کی اجازت ہوگی. لاء آف دی لینڈ اسلام ہی ہوگا.(iii)اگر یہ دونوں باتیں تمہارے لئے قابل قبول نہیں ہیں تو قتال کے لئے میدان میں آؤ. تلوار ہمارے اور تمہارے مابین فیصلہ کر دے گی. چوتھی کوئی شکل نہیں ہے. تو یہ تین شرائط درحقیقت مذکورہ بالا آیت مبارکہ پر مبنی ہیں. 

اقول قولی ھذا واستغفر اللہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات