آنحضورﷺ پر تکمیلِ نبوّت ورسالت اور اس کے تقاضے

آفاقی رسالت

قرآن حکیم کے فلسفہ وحکمت کے اعتبار سے یہ بات بہت اہم ہے کہ حضور سے پہلے جتنے رسول آئے، ان سب میں بلا استثناء یہ بات مشترک نظر آتی ہے کہ ان کی رسالت دو اعتبارات سے محدود تھی. ایک مکانی لحاظ سے، کہ وہ اپنی اپنی قوموں کی طرف یا کسی مخصوص علاقہ کی طرف مبعوث ہوئے. سورۂ ہود اور سورۂ قصص میں رسولوں کا ذکر اسی انداز میں ملتا ہے. دوسرے یہ کہ ان کی رسالت زمانی اعتبار سے بھی محدود تھی کہ ہر رسول کی رسالت اس وقت تک کے لئے تھی جب تک اگلا رسول نہیں آجاتا تھا. چنانچہ جیسے ہی اگلا رسول آتا تھا پہلے کا دورِ رسالت ختم ہو جاتا تھا. یعنی آنے والے رسول کو ملنے والی ہدایت اور شریعت میں جتنی سابقہ چیزیں برقرار رکھی جاتیں وہ آنے والی ہدایت اور شریعت کا جزو بن جاتیں، باقی منسوخ ہو جاتیں. گویا نبی اکرم  کی بعثت سے قبل رسالت کا معاملہ مکانی اور زمانی دونوں اعتبارات سے محدود رہا ہے.

تکمیلِ نبوّت ورسالت

نبوت کی تکمیل کا مظہر یہ ہے کہ قرآن مجید میں ہدایت کامل کر دی گئی. سابقہ انبیاء ورسل علیہم السلام کو جو کچھ بذریعہ وحی ملتا رہا ہے اس کا کامل، مکمل اور محفوظ ایڈیشن قرآن مجید ہے ؎ 

نوعِ انساں را پیامِ آخریں
حاملِ اُو رحمۃٌ لِّلعالمین!

چنانچہ ہدایت الٰہی کا یہ آخری اور کامل ایڈیشن آگیا تو گویا کہ نبوت کامل ہو گئی.

رسالت کی تکمیل کے دو مظہر ہیں. ایک یہ کہ محمد رسول اللہ  کی رسالت مکانی اور زمانی دونوں اعتبارات سے غیر محدود ہے. اس لئے کہ ایک جانب آپ کی رسالت کرۂ ارضی پر بسنے والی تمام نوعِ انسانی کے لئے ہے اور دوسری جانب آپ کی رسالت کا دور دائمی ہے. یعنی تاقیامِ قیامت آپ ہی کی رسالت کا دور ہے. اس ضمن میں قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اشارات موجود ہیں. مثلا ً سورۂ سبا میں ارشاد ہے 
وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا ’’اور (اے نبی) ہم نے نہیں بھیجا ہے آپ کو مگر تمام نوعِ انسانی کے لئے بشیر ونذیر بنا کر…‘‘ 

گویا کہ مکانی حدود ختم ہوئیں. کیونکہ محمد رسول اللہ  کی رسالت پورے کرۂ ارضی کے لئے ہے اور آپ کی بعثت پوری نوعِ انسانی کی طرف ہوئی ہے. آپ کی مخاطب کوئی ایک قوم، کوئی ایک قبیلہ، کوئی ایک نسل، کوئی ایک علاقہ، کوئی ایک ملک اور کسی ایک دور کے انسان نہیں بلکہ پوری نوعِ انسانی ہے. یہ چیز جہاں مکانی اعتبار سے غیر محدود ہے وہاں زمانی اعتبار سے بھی غیر محدود ہے کہ اب تا قیامِ قیامت کوئی نبی اور رسول آنے والا نہیں. اب حضور کا دورِ رسالت ہے جو قیامت تک قائم ودائم رہے گا.

تکمیل وختمِ نبوت کا منطقی تقاضا

قرآن حکیم سے جب یہ بات ثابت ہو گئی کہ جناب محمد رسول اللہ  تمام نوعِ انسانی کے لئے رسول بنا کر مبعوث کئے گئے ہیں اور آپ کی رسالت تا قیامِ قیامت دائم اور جاری وساری ہے تو اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خاتم الانبیاء وآخر الرسل محمد  جو دین حق دے کر مبعوث فرمائے گئے تھے اور جس دین کو تمام نظامہائے حیات پر غالب کرنا آپ کا فرضِ منصبی قرار دیا گیا تھا، اس دین کی دعوت وتبلیغ اور اقامت کا کام جاری رہے. چنانچہ اب یہ فریضہ اُمّتِ مسلمہ کے سپرد ہوا. یعنی ایک طرف اللہ کا پیغام تمام بنی نوعِ انسان تک اس درجہ میں پہنچا دینا کہ لوگوں پر حجت قائم ہو جائے کہ وہ اللہ کے یہاں یہ عذر پیش نہ کر سکیں کہ ہم تک تیرا پیغام نہیں پہنچا. اور پھر اسی پر بس نہیں بلکہ پورے کرۂ ارضی پر دین حق کو بالفعل غالب وقائم کرنا بھی اس امت کی ذمہ داری ہے. اس لئے کہ حضور اکرم  بنفسِ نفیس اپنے مشن کی ایک حد تک تکمیل فرما کر اس دارِ فانی سے رحلت فرما گئے. جزیرہ نمائے عرب کی حد تک انقلاب کی تکمیل ہو گئی، لیکن آپ کا مشن تو درحقیقت اس وقت پایۂ تکمیل کو پہنچے گا جب پورے کرۂ ارضی پر اللہ کا پرچم سب سے بلند ہو گا. 

اس پہلو سے جہاں تک نبی اکرم کا تعلق ہے تو حضور اپنے فرضِ منصبی کے اعتبار سے اس پر مامور تھے کہ آپ جزیرہ نمائے عرب کی حد تک انقلاب کی تکمیل بنفس نفیس فرما دیں. یہ گویا آپ کی آفاقی، عالمی اور دائمی بعثت ورسالت کا اولین مرحلہ تھا جو پورا ہوا. لیکن ابھی بین الاقوامی اور عالمی سطح پر دعوت وتبلیغ کا کام باقی تھا جس کا نبی اکرم  نے اپنی حیاتِ دنیوی کے دوران بنفسِ نفیس آغاز فرماکر پھر اس مشن کو امت کے حوالے فرمادیا کہ اب اس فریضہ کی عالمی سطح پرتکمیل تمہارے ذمہ ہے. اب ایک ایک فردِ نوعِ بشر تک دعوت وتبلیغ اور شہادت علی الناس کا فرض تمہیں انجام دینا ہے اور پورے کرۂ ارضی پر اللہ کے دین کا بول بالا کرنا یعنی ’’اسلامی انقلاب‘‘ تم نے برپا کرنا ہے. 

دعوت وتبلیغ کے ضمن میں ایک اصولی بات

یہ بات واضح ہونے کے بعد کہ جناب محمد رسول اللہ  کی بعثت ورسالت آفاقی وعالمی ہے اور تاقیامِ قیامت حضور ہی کا دورِ رسالت جاری رہے گا. ہمیں سیرتِ مطہرہ کے حولے سے اور تاریخی اعتبار سے یہ اصولی بات بھی پیش نظر رکھنی چاہئے کہ رسول اللہ  نے اپنی دعوت کے مرکز مکہ مکرمہ سے اس وقت تک قدم باہر نہیں رکھا جب تک آپ اہل مکہ سے قطعی طور پر مایوس نہیں ہو گئے. نبی اکرم  پر وحی کا آغاز ۶۱۰ء عیسوی میں ہوا. اس کے بعد سے لے کر مسلسل اٹھارہ انیس برس تک حضور کی دعوت وتبلیغ کا دائرہ صرف عرب تک محدود رہا. ان میں بھی ابتدائی دس برس تو وہ ہیں کہ آپ دعوت وتبلیغ کا کام مکہ ہی میں انجام دیتے رہے. اس میں اگر کوئی استثناء ہے تو صرف یہ کہ مکہ کے آس پاس جو میلے لگتے تھے ان میں دعوت وتبلیغ کے لئے آپ تشریف لے جایا کرتے تھے. ان میں عُکّاظ کا میلہ یا بازار بہت مشہور ہے. یہ ان میلوں میں سب سے بڑا ہوتا تھا اور اس میں عرب کے کونے کونے سے شعراء اور خطباء آکر جمع ہوتے تھے، وہاں مجلسیں اور محفلیں جمتی تھیں اور شعراء کے مابین مقابلے ہوا کرتے تھے. حضور کا دعوت وتبلیغ کے لئے ان میلوں میں تشریف لے جانا تاریخی طور پر ثابت ہے. یا پھر آپ اسی مقصد کے لئے ان قافلوں کی طرف تشریف لے جاتے تھے جو وقتاً فوقتاً مختلف ضروریات کے لئے مکہ آتے تھے اور مکہ سے باہر پڑاؤ ڈالتے تھے، مکہ سے ضروریاتِ زندگی کی چیزیں لیتے اور پھر اپنے اپنے مستقر کی طرف لوٹ جاتے تھے. اس مستثنیات کے علاوہ نبی اکرم  نے دعوت وتبلیغ کے لئے کامل دس برس تک مکہ سے باہر قدم نہیں نکالا اور حضور کی ساری دعوت وتبلیغ مکہ تک محدود رہی.

۱۰ نبوی میں دار الندوۃ میں مشورہ کے بعد محمد رسول اللہ  کے قتل کا فیصلہ کر لیا گیا. چنانچہ اہل مکہ سے ناامید ہو کر رسول اللہ  نے طائف کا سفر اختیار فرمایا، لیکن اہل طائف کی طرف سے ایک ہی روز میں جس توہین وتذلیل اور جسمانی اذیت سے سابقہ پیش آیا اس کی دس سالہ مکی دور میں نظیر نہیں ملتی. چنانچہ آپ کو ایک مشرک مطعم بن عدی کی پناہ لے کر واپس مکہ آنا پڑا.

جب بظاہر احوال ہر طرف سے راستہ بند نظر آیا تو اللہ تعالیٰ نے یثرب کی طرف ہجرت کا راستہ کھول دیا. ہجرت کے بعد چھ برس کے دوران دعوتِ توحید کا دائرہ بتدریج جزیرہ نمائے عرب میں پھیلنے لگا. لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ ان چھ برسوں کے دوران رسول اللہ  نے نہ اپنا کوئی داعی یا مبلغ عرب کی حدود سے باہر بھیجا اور نہ ہی اپنے کسی جان نثار کو اپنا 
نامہ مبارک دے کر یا کوئی پیغام دے کر بیرون عرب بھیجا. البتہ ۶ھ میں جب صلح حدیبیہ ہو گئی، جسے قرآن مجید نے فتح مبین قرار دیا، تب حضور کی دعوتی سرگرمیاں جہاں اندرونِ عرب عروج پر پہنچیں، وہاں حضور نے بیرون عرب بھی دعوت وتبلیغ کا آغاز فرمایا.

دعوت وتبلیغ کے بین الاقوامی مرحلہ کا آغاز

فتح خیبر کے بعد ۷ھ کے اوائل ہی میں رسول اللہ  نے اپنے دعوتی وتبلیغی نامہ ہائے مبارک دے کر چند صحابہ کرام ؓ کو قیصر روم، کسریٰ، ایران، عزیزِ مصر، شاہِ حبشہ اور ان رؤسائے عرب کی طرف بھیجا جو جزیرہ نمائے عرب کی سرحدوں پر آباد تھے اور جنہوں نے اس وقت تک اسلام قبول نہیں کیا تھا. ان میں سے بعض قبائل قیصر روم کے اور بعض کسریٰ ایران کے باج گزار (۱تھے. سیرت کی تمام مستند کتابوں میں اس کا تذکرہ ملتا ہے کہ رسول اللہ  نے اپنے نامہ ہائے مبارک کی ترسیل سے قبل مسجد نبوی میں تمام صحابہ کرام ؓ کو جمع کیا اورخطبہ ارشاد فرمایا. اس خطبہ میں حضور نے اسی حقیقت کو بیان کیا کہ میری بعثت پوری نوعِ انسانی کے لئے ہے. مجھے اللہ تعالیٰ نے تمام جہان والوں کے لئے رحمت اور رسول بنا کر بھیجا ہے، بفحوائے آیت قرآنی وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۰۷﴾ (الانبیاء:۱۰۷میں نے اب تک دعوت تمہیں پیش کی ہے. اب اے مسلمانو! تمہارے ذمہ ہے کہ تم اس دعوت اور پیغام کو لے کر تمام اطراف واکناف عالم میں پھیل جاؤ اور اللہ کی توحید کو عام کرو. گویا نبی اکرم  نے اپنی دعوت کے بین الاقوامی مرحلہ کا افتتاح اس خطبہ کے ذریعہ فرمایا.

خطبہ ارشاد فرمانے کے بعد رسول اللہ  نے ملوک وسلاطین کو اسلام کی دعوت دینے کے لئے خطوط تحریر کرائے اور اپنے مختلف اصحاب کے ہاتھ آس پاس کے علاقوں کے حکمرانوں اور سرداروں کو اپنے نامہ ہائے مبارک ارسال فرمائے. ظاہر بات ہے کہ اس ضمن میں 
’’اَلْاَقْرَبُ فَالْاَقْرَبُ‘‘ کا لحاظ ضروری تھا. یوں تو ہندوستان بھی تھا، چین بھی (۱) خراج ادا کرنے والا تھا، ایشیا اور یورپ کے نہ معلوم کتنے ممالک تھے، لیکن پہلا دائرہ تو قریب کے علاقوں کا ہی ہو سکتا تھا جو جزیرہ نمائے عرب کے چاروں طرف تھے.

قیصرِ روم کے دربار میں حضرت دحیہ کلبیؓ نامۂ ہائے مبارک دے کر بھیجے گئے. یہ وہ صحابی ہیں جن کے بارے میں روایت آتی ہے کہ وہ شکل وصورت میں نبی اکرم  سے بہت مشابہ تھے اور نہایت حسین تھے. حضرت جبرائیل ؑ جب بھی انسانی شکل میں تشریف لاتے تھے تو حضرت دحیہ کلبیؓ کی شکل میں آتے تھے. حضرت عبداللہ بن حذیفہ سہمی ؓ کو خسروپرویز کسریٰ ایران کی طرف بھیجا گیا. حضرت حاطب بن ابی بلتعہؓ عزیزِ مصر کی طرف بھیجے گئے. مصر اس وقت ایک نیم آزاد ملک تھا جو سلطنت روما کا باج گزار تھا. عزیز مصر خود بھی عیسائی تھا اور سلطنت روما کے ماتحت تھا. حضرت عمرو بن امیہ ؓ کو شاہِ حبش نجاشی کی طرف بھیجا گیا. حبشہ بھی مصر کی طرح سلطنت روما کا باج گزار تھا اور وہاں کا بادشاہ بھی مذہباً عیسائی تھا. یہ بات پیش نظر رہے کہ وہ نجاشی ؒ جو آنحضور پر ایمان لے آئے تھے ان کا انتقال ہو چکا تھا. ان کا ایمان اس اعتبار سے بالکل انفرادی نوعیت کا تھا کہ اس موقع پر کوئی 
"Mass Conversion" نہیں ہوئی تھی. یعنی ایسا نہیں ہوا تھا کہ ان کے تمام درباری اور پوری رعایا نے اسلام قبول کر لیا ہو، بلکہ قبولیتِ اسلام کا معاملہ ان کی ذات تک محدود تھا. جب ان کے انتقال کی خبر بذریعہ وحی آنحضور کو ملی تو آپ نے ان کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھائی. ان کے بعد جو نجاشی تخت نشین ہوا وہ عیسائی تھا. 

حضرت سلیطؓ بن عمر بن عبد شمس رؤسائے یمامہ کی طرف بھیجے گئے. یمامہ جزیرہ نمائے عرب ہی کا شمال مشرقی علاقہ ہے. آج کل یہ نجد میں شامل ہے. حضرت شجاع بن وہب الاسدی ؓ حدودِ شام میں حارث غسانی کے پاس بھیجے گئے. شام بھی اس وقت سلطنت روما کے زیرِ حکومت تھا اور وہاں قیصر کی طرف سے غسانی خاندانی حکمران تھا. گویا کہ شام کی وہی پوزیشن تھی جو انگریزی دورِ حکومت میں برِّصغیر کی بڑی ریاستوں کو حاصل تھی. ان کے علاوہ بعض دیگر رؤ ساء و سرداران کو بھی حضور نے نامۂ ہائے مبارک ارسال فرمائے. 
ان نامہ ہائے مبارک کے نتیجہ میں سلاطین کی جانب سے مختلف رد عمل سامنے آئے. ایک طرف ان بادشاہوں اور حکمرانوں کا رد عمل ہے جو مذہباً عیسائی تھے. ان کے مقابلہ میں بالکل برعکس رد عمل کسریٰ ایران کا ہے. وہ مجوسی تھا، مشرک تھا اور وحی ونبوت اور امورِ رسالت سے بالکل نابلد اور ناواقف تھا، جبکہ عیسائیوں کا معاملہ یہ تھا کہ وہ اہل کتاب تھے، ان کے پاس تورات اور انجیل موجود تھی. وہ حضرت ابراہیم، حضرت اسحق، حضرت اسمٰعیل، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام کے ناموں سے واقف تھے اور ان سب پر ایمان رکھتے تھے. قیصر روم کے بارے میں مستند تواریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود بہت بڑا عالم تھا.