نامہ مبارک میں حضور نے جو یہ بات رقم کرائی کہ یُؤْتِکَ اللہُ اَجْرَکَ مَرَّتَیْنِ تو حدیث میں آتا ہے کہ حضور نے فرمایا کہ اہل کتاب میں سے جو مجھ پر ایمان لاتا ہے، اسے اللہ دوہرا اجر دیتا ہے. یہ اس لئے کہ وہ پہلے نبیوں اور رسولوں کو ماننے والا بھی تھا اور اب وہ مجھ پر بھی ایمان لے آیا ہے. آگے جو حصہ ہے کہ فَاِنْ تَوَلَّـیْتَ فَاِنَّ عَلَیْکَ اِثْمَ الْاَ رِیْسِیِّیْنَ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کی حیثیت ایسی ہوتی ہے جیسے قیصر روم کی تھی کہ اگر وہ ایمان لے آتا تو چاہے پوری رعیت ایمان نہ لاتی لیکن لاکھوں لوگ تو ایمان لے آتے، چنانچہ ان کا اجر بھی اس کے حصہ میں آتا. لیکن اس نے روگردانی کی جس کے باعث رومی دولت ایمان سے محروم ہو گئے تو ان کا وبال بھی قیصر کے حصہ میں آئے گا. اس لئے کہ کسی ملک، کسی قوم، کسی قبیلہ کے سربراہ کفر پر اَڑے رہیں تو وہ دعوتِ اسلامی کی راہ میں سنگ گراں ثابت ہوتے ہیں. جو بھی نظامِ باطل کسی جگہ قائم ہوتا ہے تو وہ نظامِ حق کے راستہ کی سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے. لہذا حضور نے اس بات کو ایک مختصر سے جملہ میں نہایت بلاغت وفصاحت کے ساتھ سمو دیا. 

اس کے بعد نبی اکرم  نے سورہ آل عمران کی آیت ۶۴ اپنے نامہ مبارک میں درج کرائی ہے. اکثر اہل علم کی رائے ہے کہ قرآن مجید میں اہل کتاب کو توحید کی دعوت اور اسلام کا پیغام دینے کے جتنے بھی اسالیب آئے ہیں ان میں اس آیت کا اسلوب نہایت بلیغ اور مؤثر ترین ہے. نجران سے جب عیسائی احبار ورہبان کا ایک وفد نبی اکرم  کی خدمت میں اسلام کی دعوت سمجھنے کے لئے آیا تھا تو اس موقع پر حضور پر جو وحی نازل ہوئی تھی، اس میں یہ آیت مبارکہ بھی شامل ہے. اس سے اس کی عظمت، اس کے جلال، اس کی تاثیر اور اس کے محکم ہونے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے. اس آیت کا ایک ٹکڑا ہے وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعۡضُنَا بَعۡضًا اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ’’ہم میں سے کوئی اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو اپنا رب نہ بنا لے‘‘. اللہ کے سوا جن ہستیوں کو رب بنایا جاتا ہے ان میں مذہبی رب بھی ہوتے ہیں، جیسے اصنام اور مظاہرِ قدرت کی پرستش، اوتار، حلول اور اسی نوع کے دوسرے عقائد. اور سیاسی نوعیت کے رب بھی ہوتے ہیں. یعنی جسے بھی اللہ کے سوا مختار ومطاعِ مطلق تسلیم کر لیا جائے وہی تسلیم کرنے والوں کا رب ہے. درحقیقت فرعون ونمرود نے خدائی کا دعویٰ اسی اعتبار سے کیا تھا کہ وہ بادشاہ اور حاکمِ مطلق ہیں، چنانچہ وہ اپنی رعیت کے رب اور خدا ہیں. یہ دراصل سیاسی شرک ہے. آج جو لوگ عوام کی مطلق حاکمیت کے نظریہ کے حامی اور پرچارک ہیں وہ اسی سیاسی شرک میں مبتلا ہیں. لیکن عظیم اکثریت کو اس کا شعور حاصل نہیں ہے.