اب اصل امتحان آتا ہے جرأت کا، ہمت کا، قربانی کا، ایثار کا. اور اس بات کا کہ انسان حق کے لئے کیا کچھ چھوڑنے کے لئے تیار ہوتا ہے. اس مکالمہ کے دوران قیصر نے محسوس کیا کہ جیسے جیسے گفتگو آگے بڑھ رہی ہے اور درباریوں کو اندازہ ہوتا جا رہا ہے کہ قیصر کا جھکاؤ اسلام کی جانب ہے اسی نسبت سے دربار میں موجود بطارقہ اور احبار ورہبان کے نتھنے اندرونی غیظ وغضب کے باعث پھول رہے ہیں، اور برہمی وغصہ سے ان کی آنکھیں سرخ انگارہ ہو رہی ہیں اور اسی طرح اس نے اپنے عمائد واعیانِ حکومت اور اپنے سپہ سالاروں (پاکیزگی) کے تیور بگڑتے ہوئے دیکھے تو اسے اپنے اقتدار کو خطرہ محسوس ہوا. 

چنانچہ اس صورت حال سے خوف زدہ ہو کر اس نے عربوں کو دربار سے اٹھا دیا اور رسول اللہ  کے سفیر حضرت دحیہ کلبی ؓ کو کسی جواب کے بغیر واپس جانے کا حکم سنا دیا. ورنہ قرائن بتاتے ہیں کہ اس کے دل میں نورِ ایمان کی کرن پہنچ چکی تھی لیکن تاج وتخت، اقتدار وحکومت اس کے پاؤں کی بیڑیاں بن گئیں اور حق کی روشنی بجھ گئی. اقتدار، حکومت، غلبہ، قیادت وسیادت اور تکبر وہ چیزیں ہیں جو حق کو تسلیم کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹیں بن جایا کرتی ہیں. قرآن مجید میں یہود کے علماء کے بارے میں فرمایا گیا یَعۡرِفُوۡنَہٗ کَمَا یَعۡرِفُوۡنَ اَبۡنَآءَہُمۡ کہ یہ محمد () کو ایسے پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں. لیکن پہچاننا اور ہے ، ماننا اور ہے. پھر محض زبانی ماننا اور ہے، دل سے یقین کرنا اور ہے. یہ تو کئی مراحل ہیں ؏ ’’ز عشق تابہ صبوری ہزار فرسنگ است !‘‘ (۱راہِ حق میں تو بڑی بڑی رکاوٹیں، بڑے بڑے موانع اور بڑے بڑے امتحانات آتے ہیں. پس قیصر کی سلطنت وحکومت اس کے پاؤں کی بیڑی بن گئی، وہ ایمان نہیں لایا اور محروم رہ گیا. بہرحال حضور کے نامہ ہائے مبارک کے جواب میں عیسائی بادشاہوں کی جانب سے یہ ایک نمائندہ طرز عمل تھا.