علامہ شبلیؒ نے اپنی تحقیق کے مطابق نجاشی کے متعلق جو لکھا ہے، وہ درج ذیل ہے:

نجاشی بادشاہ حبش کو آپ نے دعوت اسلام کا جو خط بھیجا، اس کے جواب میں اس نے عریضہ بھیجا کہ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ خدا کے سچے پیغمبر ہیں‘‘. حضرت جعفر طیار ؓ جو ہجرت کر کے حبش چلے گئے تھے یہیں موجود تھے. نجاشی نے ان کے ہاتھ پر بیعت اسلام کر لی. ابن اسحق نے روایت کی ہے کہ نجاشی نے اپنے بیٹے کو ساٹھ مصاحبوں کے (۱) المنتخب من کتاب ازواج النبیؐ مؤلف ابو عبداللہ زبیر بن بکارؒ عبداللہ بن مصعب بن ثابت بن عبداللہ ابن زبیرؓ (متوفی۲۵۶ھ) ساتھ بارگاہ رسالت میں عرض نیاز کے لئے بھیجا، لیکن جہاز ڈوب گیا اور یہ سفارت ہلاک ہو گئی‘‘.

علامہ شبلی ؒ نے یہ روایت طبری کے حوالے سے لکھی ہے. آگے علامہؒ لکھتے ہیں : 

’’عام اربابِ سیر لکھتے ہیں کہ نجاشی نے ۹ھ میں وفات پائی، آنحضرت  مدینہ میں تشریف رکھتے تھے اور یہ خبر سن کر آپ نے غائبانہ اس کے جنازے کی نماز پڑھائی، لیکن یہ غلط ہے. صحیح مسلم میں تصریح ہے کہ جس نجاشی کی نماز جنازہ آپ نے پڑھی وہ یہ نہ تھا‘‘. (واللہ اعلم)

ان تین عیسائی بادشاہوں کے طرزِ عمل کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ بات واضح ہو جائے کہ انہوں نے نہ تو نبی اکرم  کے قاصدوں کے ساتھ کوئی بدسلوکی کی اور نہ ہی حضور کے نامہ گرامی کی کوئی توہین کی، بلکہ ہرقل قیصر روم کے رویہ سے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس کی خواہش اور کوشش یہ تھی کہ کسی طرح اس کی پوری مملکت اجتماعی طور پر اسلام کی دعوت قبول کرے لیکن اس کوشش میں وہ ناکام ہو گیا اور اپنے اقتدار کے تحفظ کی خاطر دولتِ ایمان سے محروم رہ گیا.