خسرو پرویز کا غرور اور گستاخی:

بادشاہت کا نشہ ہی کچھ ایسا ہوتا ہے کہ عام طور پر ہر بادشاہ مغرور ہو ہی جاتا ہے، لیکن خسروپرویز بہت زیادہ مغرور تھا. اس کے دور میں دربار شاہی کو جو عظمت وشوکت اور جلال حاصل ہوا اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا. اس کے نام رسول اللہ  کا نامۂ مبارک لے کر حضرت عبداللہ بن حذیفہ ؓ گئے تھے. عجم کا طریقہ یہ تھا کہ سلاطین کو جو خطوط لکھے جاتے تھے ان میں بادشاہ کا نام پہلے ہوتا تھا اور مکتوب نگار کا بعد میں. حضور کے نامہ مبارک کی ترتیب یہ تھی کہ پہلے بسم اللہ پھر خود حضور کا اسم گرامی تھا اور پھر کسریٰ کا نام تھا. یہ دیکھ کر کسریٰ آگ بگولہ ہو گیا اور اس نے غیظ وغضب سے مغلوب ہو کر نہایت گستاخانہ رویہ اختیار کیا.

نقل کفر کفر نہ باشد، اس نے حضرت عبداللہ ؓ سے کہا کہ اگر تم قاصد نہ ہوتے تو میں تمہیں قتل کرادیتا، تمہارے صاحب کی یہ جرأت کہ میرے غلام ہوتے ہوئے میرے نام سے پہلے اپنا نام لکھا. ایسا گستاخ شخص! میں ابھی اس کی گرفتاری کا فرمان جاری کرتا ہوں اور اسے بلوا کر اپنے دربار میں اپنے ہاتھ سے اس کی گردن اُڑا دوں گا. (۲ان گستاخانہ کلمات کے ساتھ اس نے نبی اکرم  کا نامۂ مبارک چاک کر ڈالا. (۳)

(۱) تاریخ طبری
(۲) یمن میں اس وقت ایران کی حکومت تھی اور ایران کے بادشاہ پورے عرب کو آزاد قبائل کا علاقہ سمجھتے تھے اور اسے اپنی قلمرو کا حصہ گردانتے تھے. 
(۳) واضح رہے کہ اس وقت کسریٰ کے سامنے رسول اللہ  کے نامۂ مبارک کا ترجمہ تھا جسے اس نے چاک کر دیا اور رسول اللہ  کا اصل نامۂ مبارک محفوظ رہا. (مرتب)