خسرو پرویز نے حضور کے قاصد اور آپ کے نامۂ مبارک کے ساتھ گستاخی پر ہی بس نہیں کیا بلکہ اس نے یمن میں اپنے گورنر کو جو ایرانی تھا، فرمان بھیجا کہ ’’یہ مدینہ کا کون گستاخ شخص ہے جس نے میری شان میں ایسی گستاخی کی ہے اور جو نبوت کا مدعی ہے، اسے فوراً گرفتار کر کے میرے دربار میں حاضر کرو‘‘. بازان گورنر یمن نے اپنے دو گماشتوں کو مدینہ بھیجا. ان دونوں نے حضور کی خدمت میں پہنچ کر کہا کہ ہمارے شہنشاہ نے آپ کو طلب کیا ہے. اگر آپ حکم کی تعمیل نہیں کریں گے تو وہ آپ کو اور آپ کے پورے ملک کو تباہ وبرباد کر کے رکھ دے گا. اس پر حضور مسکرائے اور فرمایا کہ تمہارا بادشاہ رات کو اپنے بیٹے (شیرویہ) کے ہاتھوں قتل ہو چکا ہے. اب تم واپس جاؤ اور اپنے گورنر سے کہہ دینا کہ جلد ہی اسلام کی حکومت کسریٰ کے پایۂ تخت تک پہنچے گی. چنانچہ خسرو پرویز کا یہ انجام ہوا کہ اپنے ہی بیٹے کے ہاتھوں مارا گیا، جس کی خبر حضور  کو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سے پہنچائی.