قیصر وکسریٰ کے انجام میں ایک نمایاں فرق

نبی اکرم  کے دورِ سعید ہی میں اس دور کی دونوں عظیم سلطنتوں یعنی روم وفارس سے مسلمانوں کی چھیڑ چھاڑ شروع ہو گئی تھی، جس نے حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہم اجمعین کے دورِ خلافت میں باقاعدہ جنگوں کی صورت اختیار کر لی، جن کے دو علیحدہ علیحدہ نتائج نکلے. وہ یہ کہ جہاں تک قیصر روم کا تعلق ہے تو اگرچہ وہ شام کے تمام علاقوں سے بالکل بے دخل کر دیا گیا تھا. اور شمالی افریقہ کے تمام علاقے از مصر تا مراکش اس کی فرمانروائی میں نہیں رہے تھے لیکن اس کی حکومت بالکل ختم نہیں ہوئی، بلکہ ایشیائے کوچک کے تھوڑے سے علاقے اور بلقان کی ریاستوں میں اس کا اقتدار قائم رہا.

قسطنطنیہ جو اس کا پایۂ تخت تھا وہ بعد میں پندرھویں صدی عیسوی میں ترکانِ عثمانی کے ہاتھوں فتح ہوا. خلافتِ راشدہ میں اس کی حکومت کا بالکل ختم نہ ہونا اس کے اس رویہ کی برکت تھی جو اس نے نبی اکرم کے نامۂ مبارک کے بارے میں اختیار کیا تھا. اس کے برعکس خلافتِ فاروقی میں کسریٰ کی حکومت قریباً ختم ہو چکی تھی جس کا خلافت عثمانیہ میں نام بھی باقی نہیں رہا. یزدگرد مارا گیا اور وہ پورا علاقہ جو کسریٰ عظیمِ فارس کے زیرنگیں تھا اسلامی حکومت کا جزو بن گیا. یہ انجام تھا اس گستاخانہ رویے کا جو خسروپرویز نے حضور کے نامہ مبارک کو چاک کرنے کی صورت میں کیا تھا. یہ ایک نمایاں فرق ہے جو ہمیں تاریخ اسلام کے قرنِ اول میں نظر آتا ہے.