صلح حدیبیہ کے بعد ۷ھ کے بالکل اوائل میں حضور نے ان رؤ ساءِ عرب کے نام بھی نامہ ہائے مبارک ارسال فرمائے تھے جو عرب اور شام کے سرحدی علاقوں میں آباد تھے. ان میں غسان کا قبیلہ تعداد میں بھی بڑا تھا اور کافی طاقت ور بھی تھا. اس قبیلہ کے لوگ اگرچہ عرب تھے، لیکن ایک مدت سے عیسائی تھے. یہ قبیلہ قیصر روم کے ماتحت اور اس کا باج گزار تھا. اس وقت قبیلہ کا رئیس وحکمران شُرَحْبِیل بن عمرو نامی شخص تھا. اس کے پاس حارث بن عمیر ؓ بطورِ قاصد حضور کا نامہ مبارک لے کر گئے تھے. اس بدبخت نے حضور  کے قاصد کو شہید کر دیا. حضور نے انؓ کے خون کے قصاص کے لئے تین ہزار کا لشکر تیار کر کے جمادی الاولیٰ ۸ ھ میں شام کی طرف بھیجا. اس لشکر کا سپہ سالار حضور  نے حضرت زید بن حارثہ ؓ کو مقرر فرمایا اور پہلے ہی سے معین کر دیا کہ اگر ان کو دولتِ شہادت نصیب ہو تو حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ (حضرت علی ؓ کے حقیقی بھائی) سپہ سالار ہوں گے. اور اگر وہ بھی شہید ہو جائیں حضرت زیدبن رواحہ ؓ سپہ سالار ہوں گے جو انصاری تھے اور مشہور شاعر تھے.

حضرت زیدبن حارثہ ؓ نبی اکرم  کے آزاد کردہ غلام تھے. اس بنا پر لوگوں کو تعجب ہوا کہ حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ اور حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ کے ہوتے ہوئے حضرت زید ؓ کو لشکر کی سرداری اور سپہ سالاری کس بنا پر سپرد کی گئی ہے. لیکن اسلام جس مساواتِ عام کو قائم کرنے کیلئے آیاتھا اس کیلئے یہ عملی نظیر ضروری تھی تاکہ لوگوں میں ایثار کا جذبہ پیدا ہو اور امیر خواہ کوئی بھی ہو اس کی اطاعت فی المعروف کی تربیت حاصل ہو. مرض وفات کے شروع ہونے سے قبل حضور  نے انہی زید ؓ بن حارثہ کے فرزند حضرت اسامہ ؓ کو اس لشکر کا افسر وامیر مقرر کیا تھا جو شام کی سرحدوں کی طرف بھیجا جانے والا تھا. حضرت اسامہ ؓ کی ماتحتی میں حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما جیسے جلیل القدر صحابی بھی شامل تھے. حضور  نے مساواتِ انسانی کے محض وعظ ارشاد نہیں فرمائے بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس طور پر تزکیہ فرمایا تھا کہ وہ لوگ جو نسلی اور قبائلی تفاخر کو حرزِ جان بنائے رکھتے تھے ایک کنگھی کے دندانوں کی طرح باہم مربوط اور بنیانِ مرصوص بن گئے تھے. سیرتِ مطہرہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے اسی نوع کے واقعات کو دیکھ کر ایچ جی ویلز جیسے دشمن اسلام کو بھی یہ لکھنا پڑا کہ ’’مساواتِ انسانی، اخوت اور حریت پر نہایت بلند پایہ مواعظ تو حضرت مسیح (علیہ السلام ) کے یہاں بھی ملتے ہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ ان اصولوں پر دنیا میں سب سے پہلے عملی معاشرہ محمد ( ) نے قائم فرمایا‘‘.

اگرچہ یہ مہم قصاص لینے کے لئے بھیجی گئی تھی، لیکن چونکہ تمام مہمات کا بنیادی وحقیقی مقصد اسلام کی تبلیغ ودعوت تھا اس لئے لشکر کی روانگی سے قبل اسے حضور  نے ہدایات دیں اور ارشاد فرمایا کہ راہ میں جو قبائل آباد ہیں ان کو اسلام کی دعوت دی جائے اور شُرَحبیل بن عمرو غسانی کو بھی پہلے اسلام کی دعوت دی جائے. اگر وہ قبول کر لے تو جنگ کی ضرورت نہیں. رسول اللہ فوج کے ساتھ مدینہ سے باہر کچھ دور تک بنفسِ نفیس تشریف لے گئے.

اِدھر مدینہ میں مسلمانوں کا لشکر ترتیب پا رہا تھا اور اُدھر جاسوسوں نے شُرَحبیل کو خبر کر دی. چنانچہ شُرَحبیل نے اس لشکر کے مقابلہ کے لئے قریباً ایک لاکھ کی فوج تیار کی، کیونکہ اسے معلوم تھا کہ معاملہ قصاص اور انتقام کا ہے، لہذا جنگ ضرور ہو گی. پھر خود قیصر روم (ہرقل) ایک بہت بڑی فوج لے کر غسانیوں کے دار الحکومت بصریٰ سے چند میل کے فاصلہ پر آکر بیٹھ گیا تاکہ اگر غسانی شکست کھائیں تو وہ ان کی مدد کے لئے اپنی فوج لے کر پہنچ جائے. اہل ایمان کے لشکر کو جب غسانیوں کی تیاری اور اس کی پشت پر ہرقل کی فوج کی موجودگی کا علم ہوا تو مشورہ ہواکہ ان حالات میں کیا طرز عمل اختیار کیا جائے. کہاں صرف تین ہزار اور کہاں ایک لاکھ! گویا ایک اور تینتیس کی نسبت بن رہی تھی، چنانچہ مشورہ ہوا کہ دریں حالات مقابلہ کا خطرہ (Risk) مول لینا چاہئے یا حضور  کو اطلاع دی جائے اور توقف کر کے آپ کے حکم کا انتظار کیا جائے.