شہادت ہے مطلوب ومقصودِ مؤمن!

حضرت زید بن حارثہ ؓ کی رائے یہی تھی کہ ہمیں سردست مقابلہ نہیں کرنا چاہئے اور حضور کے حکم کا انتظار کرنا چاہئے. لیکن حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ کی رائے یہ تھی کہ مقابلہ کیا جائے. چنانچہ وہ اٹھے اور انہوں نے تقریر کی کہ مسلمانو! ہم دنیا کے طالب ہو کر نہیں نکلے، فتح اور شکست سے ہمارا کوئی تعلق نہیں، ہم تو شہادت کے متمنی ہیں، اللہ نے ہمیں یہ موقع فراہم کیا ہے تو ہم تاخیر کیوں کریں؟‘‘. اس تقریر کا یہ اثر ہوا کہ فیصلہ ہو گیا کہ مقابلہ کیا جائے گا. چنانچہ تصادم ہو گیا. اب کہاں تین ہزار کہاں ایک لاکھ! لیکن جوشِ ایمانی اور شوقِ شہادت سے سرشار یہ مختصر سا لشکر ایک لاکھ کی فوج پر حملہ آور ہوا. حضرت زید بن حارثہ ؓ شہید ہوئے تو ان کے بعد حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ نے عَلَم اپنے ہاتھ میں لیا. ان کے متعلق روایات میں آتا ہے کہ جب انہوں نے عَلَم سنبھالا اور لشکر ان کی قیادت میں آیاتو گھوڑے سے اتر کر پہلے خود اپنے گھوڑے کی ٹانگوں پر تلوار ماری اور اس کی کونچیں کاٹ ڈالیں تاکہ گھوڑے پر بیٹھ کر فرار ہونے کا خیال بھی دل میں نہ آئے. پھر نہایت بے جگری سے دشمنوں کی فوج پر ٹوٹ پڑے. ایک ہاتھ قلم ہوا تو دوسرے ہاتھ میں عَلَم تھام لیا. وہ بھی قلم ہوا تو باقی ماندہ بازوؤں سے جھنڈا آغوش میں لے لیا تاکہ عَلَم ان کے جیتے جی زمیں بوس نہ ہو. یہ صورتِ حال دیکھ کر حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ نے آگے بڑھ کر جھنڈا اپنے ہاتھ میں لے لیا. حضرت جعفر ؓ زخموں سے چور چور ہو کر زمین پر گرے اور اپنی جان جان آفرین کے سپرد کر دی. 

رسول اللہ  نے خواب میں دیکھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بتایا کہ جعفر ؓ کو اللہ تعالیٰ نے کٹے ہوئے دو بازوؤ ں کی جگہ پر دو پَر عطا فرما دیئے ہیں جن سے وہ جنت میں اڑتے پھر رہے ہیں. اسی وقت سے آپ کا لقب ’’طیار‘‘ قرار پایا اور وہ جعفر طیار کے نام سے موسوم ہوئے. رضی اللہ تعالیٰ عنہ. حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما ، جو اس غزوہ میں شریک تھے، ان کا بیان ہے کہ میں نے جعفر ؓ کی لاش بعد میں خود دیکھی تھی، اس پر تلواروں اوربرچھیوں کے نوے زخم تھے، لیکن سب سامنے کی طرف تھے، پشت پر کوئی زخم نہیں تھا. یہ تھے حضرت جعفر طیار ؓ . ان کے بعد حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ بھی دادِ شجاعت دیتے ہوئے شہید ہو گئے.