جناب رسول اللہ  نے ان تین صحابہ کرامؓ کو یکے بعد دیگرے سپہ سالار نامزد کیا تھا، لیکن مزید کوئی ہدایت نہیں دی تھی. چنانچہ جب وہ تینوں شہید ہو گئے تو اب مسلمانوں کے لشکر میں سے حضرت خالد بن ولید ؓ نے آگے بڑھ کر کمان سنبھالی اور نہایت بہادری اور بے جگری سے لڑے. صحیح بخاری میں ہے کہ اس غزوہ میں ان کے ہاتھ سے آٹھ تلواریں ٹوٹ ٹوٹ کر گریں. 
(۱لیکن ایک لاکھ سے تین ہزار کا مقابلہ تھا. اس نازک صورت حال (۱) صحیح بخاری میں ’’غزوۂ موتہ‘‘ کے باب میں حدیث ہے کہ جنگ موتہ کی خبر وحی کے ذریعہ سے حضور  کو مل رہی تھی.

آپ نے از روئے وحی فرمایا ’’اب اللہ کی ایک تلوار یعنی خالد بن ولید سیف من سیوف اللہ نے مسلمانوں کا عَلَم اپنے ہاتھ میں لیا اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنے دشمن پر غلبہ دیا‘‘. حدیث میں الفاظ آئے ہیں کہ ’’فتح اللہ علیھم‘‘ غلبہ اور فتح کی تشریح میں ارباب سیر اور (باقی اگلے صفحہ پر) میں خالد بن ولید ؓ کی حکمت عملی یہ تھی کہ وہ ایسی جنگی چال کے ذریعے رومیوں کو مرعوب کر کے اتنی کامیابی کے ساتھ مسلمانوں کو پیچھے ہٹا لیں کہ رومیوں کو تعاقب کی ہمت نہ ہو. جس میں وہ کامیاب ہوئے. یہ روایات بھی موجود ہیں کہ غسانیوں کے ہراول دستے نے جب حملہ کیا تو واقعتا اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی اور ہراول دستہ شکست کھا کر فرار ہو گیا. بعد میں دشمن کی پوری فوج نے یکبارگی حملہ کر کے مسلمانوں کی فوج کو اپنے گھیرے میں لے لیا. حضرت خالد ؓ بن ولید نے پہاڑ کی جانب سے دشمنوں کا گھیرا توڑا اور اپنے لشکر کو لے کر پہاڑ کے دامن میں پہنچ گئے اور اس طرح اپنی فوج کو دشمنوں کے حملوں سے بچا لائے. 

جب یہ فوج مدینہ پہنچی تو بعض روایات میں آتا ہے کہ لوگوں نے یہ سمجھا کہ شاید یہ بھاگ کر آئے ہیں. چند لوگوں نے شہر سے باہر نکل کر ان پر کنکریاں اور ریت پھینکی کہ تم لوگ بھگوڑے ہو. تم لوگ اللہ کی راہ میں قتال کے لئے گئے تھے لیکن اپنی جان بچا کر آگئے ہو.
نبی اکرم  کو جب یہ خبر ملی تو آپ بنفسِ نفیس مدینہ سے باہر تشریف لائے. آپ نے بڑے تپاک سے فوج کا استقبال کیا اور یہ ارشاد فرماکر ان کو تسلی دی کہ تم مفرور نہیں ہو، بلکہ دوبارہ حملہ کرنے کی نیت سے پیچھے ہٹ آنے والے ہو. جیسے سورۃ الانفال میں آچکا تھا کہ پینترا بدلنے اور جنگی چال کے طور پر یا نئی قوت کے ساتھ پھر مقابلے کی نیت کے ساتھ پیچھے ہٹا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے. 
(۱غزوۂ موتہ سے بچ کر آنے والے اہل ایمان دراصل اسی زمرے میں آتے تھے، یہ جان بچا کر فرا ر نہیں تھا. لہذا نبی اکرم  نے اس فوج کو تسلی دی. ادھر نہ صرف غسانی بلکہ سارا عرب اور مشرق وسطیٰ یہ (گزشتہ صفحہ سے) اہلِ روایت کی مختلف آرا ملتی ہیں. مولانا شبلی ؒ نے ان کو اپنی تالیف سیرۃ النبی میں ’’غزوۂ موتہ‘‘ کے باب کے اختتام پر حاشیہ میں درج کر دیا ہے. البتہ یہ بات واضح ہے کہ حضرت خالدؓ بن ولید کا لقب ’’سیف اللہ‘‘ اسی حدیث کی رُو سے مشہور ہوا. (مرتب)

(۱) سورۂ انفال کی آیت نمبر ۱۶ میں کفار کے مقابلہ میں جان بچا کر پیٹھ پھیرنے والوں کے لئے اللہ کے غضب اور جہنم کی وعید آئی ہے. اسی آیت کے درمیان میں یہ استثنائی الفاظ آئے ہیں: 
اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوۡ مُتَحَیِّزًا اِلٰی فِئَۃٍ (مرتب) دیکھ کر حیران وششدر رہ گیا کہ ایک اور ۳۳ کے اس مقابلہ میں بھی کفار مسلمانوں پر غالب نہ آسکے. مسلمانوں کے جتنے لوگ شہید ہوئے اس سے کہیں زیادہ تعداد میں کفار مقتول ہوئے. پھر ایک لاکھ کی فوج کے نرغہ سے تین ہزار کی مختصر سی فوج کو بچا لے جانا بھی فوجی اعتبار سے بڑے اچنبھے کی بات تھی. یہی چیز تھی جس نے شام اور عراق کی سرحدوں پر آباد قبائل اور نجدی قبائل کو اسلام کی دعوت توحید سے متاثر کیا اور اس غزوہ کے بعد ہزاروں کی تعداد میں ان قبائل کے لوگ ایمان لے آئے.