غسانیوں کا خوف اور جنگی تیاریاں

جنگِ موتہ کے اس معرکے نے غسانیوں اور رومیوں کو ہلا کر رکھ دیا اور ان کو خوف لاحق ہو گیا کہ مسلمان چین سے بیٹھنے والے نہیں ہیں. وہ یقینا دوبارہ حملہ کریں گے. چنانچہ ایک طرف غسانیوں نے فوجی تیاریاں شروع کر دیں، دوسری طرف انہوں نے قیصر روم کو لکھا کہ اس ابھرتی ہوئی طاقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے، امسال پورا عرب قحط میں مبتلا ہے لہذا یہ بہترین موقع ہے کہ اس ابھرتی ہوئی قوت کو کچل دیا جائے. چنانچہ ہرقل نے بھی چالیس ہزار کی فوج شام بھیج دی اور خود مزید فوج کے ساتھ حمص پہنچ گیا. اس طرح غسانیوں اور رومیوں نے ایک لشکر جرار تیار کر لیا. 

غزوۂ تبوک

شام اور عرب کے مابین تجارت کا سلسلہ جاری تھا. چنانچہ تاجروں کے ذریعہ سے یہ خبر پورے عرب میں پھیل گئی کہ غسانی رومی فوج کے ساتھ مل کر عنقریب مدینہ پر حملہ کرنے اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجانے والے ہیں. نبی اکرم  کو بھی یہ خبریں برابر مل رہی تھیں چنانچہ آپ نے بھی فوج کی تیاری کا حکم دے دیا. یہ پہلا موقع تھا کہ حضور  کی طرف سے نفیر عام ہوئی.

یعنی ہر مسلمان جس کو کوئی عذر شرعی لاحق نہ ہو اس کا اس غزوہ کے لئے نکلنا اور فوج میں شامل ہونا لازم قرار دے دیا گیا. اس سے قبل یہ ہوتا تھا کہ جب بھی کہیں کوئی مہم بھیجنی ہوتی تھی تو نبی اکرم مسجد نبوی میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جمع فرماتے اور مہم کے لئے مطلوبہ تعداد کے مطابق یا خود انتخاب فرماتے یا ان اصحاب کو شامل فرما لیتے جو خود کو اس مہم کے لئے پیش کرتے. لیکن اس مرتبہ صورتحال مختلف تھی. چنانچہ نفیر عام کے نتیجہ میں تیس ہزار کی فوج تیار ہو گئی اور آپ اس لشکر کو لے کر تبوک کی طرف روانہ ہوئے. 

سورۃ التوبہ کا اکثر حصہ غزوۂ تبوک سے متصلاً قبل اور متصلاً بعد کے واقعات پر سیر حاصل تبصرہ ہے. یہی موقع ہے کہ جس میں منافقین کا کردار نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے اور ان کے نفاق کا پردہ چاک ہوتا ہے. 

صحابہ کرام ؓ کا سخت ترین امتحان:

غزوۂ احزاب کی طرح غزوۂ تبوک بھی صحابہ کرامؓ کے لئے نہایت سخت امتحان کا موقع تھا. اس لئے کہ اب ٹکراؤ وقت کی دو عظیم ترین طاقتوں میں سے ایک طاقت یعنی سلطنت روما سے درپیش تھا. اب بات عربوں کی باہمی جنگ کی نہیں تھی جہاں ایک اور تین چار یا ایک اور دس یا بیس کی نسبت ہو. اب تو سلطنتِ روما سے ٹکراؤ کا مسئلہ درپیش تھا کہ جس کے پاس لاکھوں کی تعداد میں ہروقت باقاعدہ فوجیں تیار رہتی تھیں جو اس دور کے اعتبار سے اعلیٰ ترین ہتھیاروں سے لیس تھیں. غسانیوں نے لاکھوں کا لشکر تیار کر رکھا تھا، جس کی پشت پر خود ہرقل قیصر روم اپنی کثیر فوج کے ساتھ شام میں موجود تھا اور وہ کسی طرح بھی اپنے ان مقبوضات سے دست بردار ہونے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا تھا.

ایک طرف یہ صورت حال تھی، دوسری طرف عالم یہ تھا کہ رسول اللہ  نے صحابہ کرام ؓ کا اتنا سخت امتحان لیا کہ ہر مسلمان کا جنگ کے لئے نکلنا لازم فرمایا، الا یہ کہ وہ ضعیف یا بیمار ہو. پھر یہ کہ قحط کا عالم اور شدت کی گرمی کاموسم تھا کہ لوگوں کو ویسے بھی گھر سے نکلنا شاق گزرتا تھا. ان حالات میں طویل سفر گویا خود اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف تھا. یہی وجہ ہے کہ اس موقع پر منافقین کا پردہ چاک ہو گیا، جو خود بھی جنگ کے لئے نکلنے سے جی چراتے تھے اور دوسروں کو بھی منع کرتے تھے کہ لَا تَنۡفِرُوۡا فِی الۡحَرِّ ’’گرمی میں نہ نکلو‘‘. مزید یہ کہ کھجوروں کی فصل تیار تھی اور یہ اندیشہ لاحق تھا کہ اگر اب چلے گئے تو یہ کھجوریں کون اتارے گا. یہ درختوں ہی پر گل سڑ کر ختم ہو جائیں گی. پہلے ہی کھانے کے لالے پڑے ہیں، یہ فصل بھی اگر برباد ہو گئی تو پھر کیا ہو گا؟

سب پر مستزاد یہ کہ طویل ترین سفر اور سلطنت روما سے ٹکراؤ کا مرحلہ درپیش تھا، لہذا 
سازوسامان بھی کافی درکار تھا. چنانچہ نبی اکرم  صحابہ کرامؓ کو ترغیب دے رہے تھے کہ اللہ کی راہ میں زیادہ سے زیادہ مالی انفاق بھی کرو. نبی اکرم  کی اس ترغیب کے نتیجہ میں پرستارانِ حق نے سازوسامان کی فراہمی میں اپنی بساط سے بڑھ کر حصہ لیا. جو صحابہ کرام ؓ آسودہ حال تھے انہوں نے بڑی بڑی رقمیں پیش کیں. یہی وہ موقع ہے جب حضرت عمر فاروق ؓ نے اپنے گھر کا نصف سازوسامان اور اثاثہ جب کہ حضرت ابوبکر ؓ نے اپنا سارے کا سارا اثاثہ نذر کر دیا اور گھر میں جھاڑو پھیر دی. غریب صحابہؓ نے محنت مزدوری کر کے جو کچھ کمایا لاکر حاضر کر دیا. ایک صحابی ؓ نے رات بھر ایک باغ میں پانی سینچا اور اس کے معاوضہ میں انہیں جو کھجوریں ملیں وہ لا کر خدمتِ اقدس میں پیش کر دیں. عورتوں نے اپنے زیور اتار کر دے دیئے. الغرض تمام اہل ایمان میں جوش جہاد کی لہر دوڑ گئی.
یہ نفیر عام اور انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب منافقوں کے لئے کسوٹی بن گئی. اس موقع پر پیچھے رہ جانے اور انفاق سے ہاتھ روکنے کے معنی یہ تھے کہ ایسے شخص کا اسلام کے ساتھ تعلق کا معاملہ مشتبہ ہو جاتا.

چنانچہ منافقین کے لئے یہ موقع ان کے نفاق کا پردہ چاک کرنے کا سبب بن گیا. دوسری طرف وہ اہلِ ایمان بھی تھے جو سواریوں کی کمی اور سامان کی قلت کی وجہ سے تبوک کے سفر پر جانے سے معذور تھے. حالانکہ ان کی شدید خواہش تھی کہ وہ نبی اکرم کے ساتھ نکلیں. وہ حضور کی خدمت میں رو رو کر کہتے کہ اگر آپ ہمیں بھی ساتھ لے چلیں تو ہماری جانیں قربان ہونے کے لئے حاضر ہیں. ان مُخلِصین کی بے تابیوں کو دیکھ کر حضور  کا دل بھر آتا تھا. چنانچہ سورۃ التوبہ میں جہاں ضعفاء اور مریضوں کو اس غزوہ میں شرکت سے مستثنیٰ قرار دیتے ہوئے تسلی دی گئی وہاں ان مخلص اہلِ ایمان صحابہؓ کی تسلی کے لئے یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی:
وَ لَا عَلَی الَّذِیۡنَ اِذَا مَاۤ اَتَوۡکَ لِتَحۡمِلَہُمۡ قُلۡتَ لَاۤ اَجِدُ مَاۤ اَحۡمِلُکُمۡ عَلَیۡہِ ۪ تَوَلَّوۡا وَّ اَعۡیُنُہُمۡ تَفِیۡضُ مِنَ الدَّمۡعِ حَزَنًا اَلَّا یَجِدُوۡا مَا یُنۡفِقُوۡنَ ﴿ؕ۹۲

’’اور (اسی طرح) ان لوگوں پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہے جو (اے نبی ْ) آپ کے پاس آئے اور درخواست کی کہ ہم کو سواری دیجئے (تاکہ ہم بھی ساتھ چلیں) تو آپ نے کہا کہ میرے پاس سواری نہیں ہے جس پر تم کو سوار کر سکوں تو وہ واپس چلے گئے اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے کہ افسوس ہم اس جہاد میں حصہ لینے کی مقدرت نہیں رکھتے‘‘. 

تبوک کی طرف کوچ :

الغرض رجب ۹ ھ میں نبی اکرم  نے ۳۰ ہزار مجاہدین کے ساتھ مدینہ سے شام کی طرف کوچ فرمایا اور تبوک کے مقام پر قیام فرمایا جو شام اور جزیرہ نمائے عرب کا سرحدی مقام ہے. اس سفر میں دس ہزار گھڑ سوار آپ کے ہمراہ تھے. اونٹوں کی اتنی کمی تھی کہ ایک ایک اونٹ پر کئی کئی آدمی باری باری سوار ہوتے تھے.

قیصر کا جنگ سے اعراض:

غسانیوں نے لاکھوں کی فوج تیار کر رکھی تھی اور قیصر نے چالیس ہزار رومی سپاہ ان کی مدد کے لئے بھیج رکھی تھی. اس کے علاوہ وہ خود بھی ایک لشکر جرار کے ساتھ غسانیوں کی مدد کے لئے حمص میں موجود تھا. لیکن جب قیصر کو یہ معلوم ہوا کہ مسلمانوں کا جو لشکر مدینہ سے آرہا ہے اس کی قیادت خود جناب محمد رسول اللہ  فرما رہے ہیں تو اس نے غسانیوں اور رومی فوجوں کو حکم بھیجا کہ سرحد سے تمام فوجیں واپس چلی آئیں. اس لئے کہ وہ جانتا تھا کہ حضور  اللہ کے رسول ہیں اور یہ کہ اللہ کے رسول سے مقابلے کا نتیجہ شرمناک شکست کے علاوہ اور کچھ نہیں نکل سکتا. پھر غزوۂ موتہ میں ایک جانب تین ہزار اور دوسری جانب ایک لاکھ فوج کے مقابلہ کی جو کیفیت اس کے علم میں تھی تو اس کے بعد اس کی ہمت نہ پڑی کہ وہ تیس ہزار فدائین کے اس لشکر سے مقابلہ کرے جس کی کمان خود نبی اکرم  فرما رہے تھے. حالانکہ اس وقت اس کے پاس غسانیوں اور رومیوں کی دو لاکھ سے بھی زیادہ فوج موجود تھی. چنانچہ وہ طرح دے گیا اور اس نے سرحد سے تمام فوجیں واپس ہٹا کر مسلح تصادم کا ہر امکان روک دیا.

نبی اکرم  کے اقدامات:

نبی اکرم  نے اس مرحلہ پر قیصر کے اعراض اور پسپائی کو کافی سمجھا اور از خود تبوک سے آگے بڑھ کر شام کی سرحد میں داخل ہونے کے بجائے اس بات کو ترجیح دی کہ اس طرح لشکر اسلام کو جو اخلاقی اور نفسیاتی فتح حاصل ہوئی تھی اس سے زیادہ سے زیادہ سیاسی اور جنگی فوائد حاصل کئے جائیں. حضور وہاں بیس دن تک مقیم رہے تاکہ اگر قیصر مقابلہ میں آتا ہے تو آئے. اس عرصہ کے دوران آپ نے سرحد کے اردگرد جو قبائل آباد تھے، ان کے رئیسوں اور سرداروں سے معاہدے کئے اور اس طرح اس علاقے میں اپنی پوزیشن مضبوط بنالی. گویا ہجرت کے بعد غزوۂ بدر سے قبل حضور نے قریش کے خلاف جو اقدام (Active Resistance) کیا اور قریش کی سیاسی ناکہ بندی (Political Isolation) کی وہی کام حضور نے تبوک کے ۲۰ یوم کے قیام کے دوران انجام دیا. اس کے بعد آپ مدینہ واپس تشریف لے آئے.

الغرض یہ ہیں سیرت کے وہ اہم واقعات یعنی سلاطین ورؤسا کو نامہ ہائے مبارکہ کی ترسیل، جنگ موتہ اور غزوۂ تبوک جن سے انقلابِ محمدی کی بین الاقوامی تصدیر 
(Export) کے کام کا آغاز ہوا. یعنی جزیرہ نمائے عرب سے نکل کر اب اطراف واکنافِ عالم میں حضور کی انقلابی دعوت پہنچانے اور توحید کا عَلَم کرۂ ارضی پر بلند کرنے کا جو کام امت کے سپرد تھا، اس کا راستہ حضورنے بنفسِ نفیس کھول دیا.