اصلاً تو ترتیب یہ ہونی چاہئے کہ انقلابِ محمدی علیٰ صاحبہ الصلوٰۃ والسلام کے جو چھ مراحل بیان کئے گئے تھے، انطباق کے معاملہ میں بھی وہی ترتیب اختیا رکی جائے. یعنی پہلے اس مسئلہ پر اظہار خیال ہو کہ دعوت کے مرحلہ میں کوئی فرق وتفاوت ہو گا یا نہیں، اور اگر ہو گا تو وہ کیا ہو گا؟ پھر تنظیم کے مرحلہ اور اس کے طریق کار میں کوئی فرق وتفاوت ہو گا یا نہیں، اگر ہو گا تو کیا ہو گا؟ تربیت کے عمل میں کوئی فرق وتفاوت ہو گا یا نہیں، اگر ہو گا تو کیا ہو گا؟ اسی کے ساتھ صبر محض (Passive Resistance) کا مرحلہ ہے، جس کے بعد اقدام (Active Resistance) کا مرحلہ آتا ہے. گنتی اور ترتیب کے اعتبار سے تو یہ دونوں مرحلے چوتھے اور پانچویں نمبر کے طور پر بیان ہوتے ہیں جب کہ حقیقت کے اعتبار سے صبر محض کا مرحلہ پہلے مرحلے یعنی دعوت کے ساتھ ساتھ شروع ہو جاتا ہے. تو سوچنا ہو گا کہ آیا ان کے ضمن میں بھی کسی اجتہادی تبدیلی کی ضرورت ہو گی یا نہیں. اسی طرح آخری مرحلہ یعنی مسلح تصادم (Armed Conflict) کا معاملہ ہے کہ آیا اس میں بھی کوئی فرق وتفاوت ہے یا نہیں ہے، اگر ہے تو وہ کیا ہے؟

موضوع کی نزاکت

زیر بحث موضوع بڑا نازک اور پیچیدہ مسئلہ ہے، کیونکہ اِس دور میں اسلامی انقلاب کے برپا ہونے کی بظاہر احوال اُس وقت تک کوئی صورت ممکن نہیں ہے جب تک کہ اس مسئلہ کو تمدنی ارتقاء کی روشنی میں حل نہ کیا جائے اور اس کے صحیح متبادل طریقہ کو تلاش نہ کیا جائے. چنانچہ اس اعتبار سے بھی یہ مسئلہ بڑی اہمیت کا حامل ہے. ہمارا اصل ہدف اسلامی انقلاب برپا کرنا ہے، جس کے چھ مراحل کا تذکرہ کافی تفصیل کے ساتھ ہو چکا. چونکہ قانونی اعتبار سے آخری مراحل میں ہی سب سے بڑا فرق واقع ہوتا ہے اس لئے انہی مراحل کا ذکر پہلے ہو گا اور یہ فرض کیا جائے گا کہ ابتدائی مراحل کسی معاشرہ میں مکمل ہو چکے ہیں. یعنی خالص اسلام کی دعوت پر ایک تحریک اُٹھی، اس کو اس معاشرہ میں مقبولیت حاصل ہوئی، اسے response ملا، لوگوں نے شعوری طور پر اس دعوت کو قبول کیا، پھر وہ منظم ہوئے اور سمع وطاعت والی ایک تنظیم کا نظام قائم ہو گیا.

پھر ان کی تعداد بھی اتنی معتدبہ (۱ہو گئی کہ وہ تنظیم اب رائج نظام کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں ہے. پھر یہ کہ تنظیم کے کارکنوں کی تربیت بھی ایسی ہو چکی ہے کہ ان کے انفرادی کردار واخلاق اور ان کی سیرت کے اعتبار سے ان پر اعتماد کیا جا سکتا ہے. ان کے متعلق یہ حسن ظن موجود ہے کہ وہ فی الواقع اپنی انفرادی زندگی میں اپنے امکان بھر اسلام کو عملاً نافذ کر چکے ہیں، انہوں نے تزکیہ کے مراحل بھی طے کر لئے ہیں اور ان کے دل راہِ حق میں قربانیاں دینے کے لئے بے تاب ہیں. یہ مفروضات (Pre-suppositions) ہیں جو پیشِ نظر ہوں گے. کسی انقلابی عمل کا آخری مرحلہ مسلح تصادم ہوتا ہے، مگر یہ آج کا مسئلہ نہیں ہے، یہ فوری طور پر عمل کرنے والی بات نہیں ہے، لہذا اس آخری مرحلہ کو صرف علمی طور پر سمجھنا ہو گا. 

مزید براں ہمارا سابقہ ایسے حالات سے ہے کہ ایک مسلمان معاشرہ میں، جو ایمان اور عمل دونوں اعتبارات سے سخت مضمحل ہو چکا ہے، نیز جس میں حکومت کرنے والے بھی (۱) معقول مسلمان ہیں، خواہ وہ بادشاہ ہوں، جیسے سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک میں ہیں، چاہے وہ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ہوں اور خواہ وہ جمہور کے منتخب نمائندے ہوں، جیسے بہت سے ممالک میں جمہوری حکومتیں قائم ہیں، بہرحال کچھ بھی ہو مسلمانوں کا معاشرہ ہے اور حکمران بھی مسلمان ہیں، ان کی تکفیر نہیں کی گئی ہے. اپنی نجی زندگیوں میں وہ کچھ بھی ہوں، فاسق وفاجر ہوں، یا نمازی اور روزہ دار ہوں، دونوں صورتوں میں وہ مسلمان ہیں، لیکن اس معاشرہ میں اسلامی نظام قائم نہیں ہے، تو اس نظام کو بیخ وبُن سے اکھاڑ کر صحیح وحقیقی اسلامی نظام کے قیام کے لئے آخری اقدام کی صورت کیا ہو گی یا بالفاظ دیگر کیا ہو سکتی ہے جو مسلح تصادم کا بدل (alternative) بن سکے؟ 

ایک اسلامی تحریک کے اوصاف

آگے بڑھنے سے قبل بات کی تفہیم کے لئے ایک بار پھر ایسی تحریک کے اوصاف ذہن میں تازہ کر لیجئے جو ٹھیٹھ اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لئے کسی معاشرہ میں اٹھی ہو. وہ تحریک کسی فرقہ واریت کی بنیاد پر نہ اٹھی ہو، وہ محض رائج الوقت نظام کی کسی جزوی اصلاح کے لئے نہ اٹھی ہو، وہ صرف کسی انتخابی عمل کے ذریعے اس نظام کو چلانے والے ہاتھوں کو بدلنے کے لئے میدان میں نہ آئی ہو، بلکہ اس جماعت کا مقصد خالص اسلامی انقلاب برپا کرنا ہو. یعنی معاشرہ میں علمی وعملی دونوں اعتبارات سے توحید کے نفاذ وانعقاد کی جدوجہد ہی اس کا مقصود ومطلوب ہو. پھر یہ کہ ایک معتدبہ تعداد میں لوگوں نے اسے شعوری طور پر قبول کیا ہو. پھر یہ کہ وہ منظم ہو چکے ہوں اور منظم بھی اس درجہ میں کہ ’’وَ اسۡمَعُوۡا وَ اَطِیۡعُوۡا ‘‘ کی کیفیت پیدا ہو گئی ہو. وہ کبھی مشتعل نہ ہوئے ہوں. انہوں نے کبھی بھی گالی کا جواب گالی سے نہ دیا ہو. یعنی وہ ان مراحل سے بڑی حد تک گزر چکے ہوں جو صبر محض کے عنوان کے تحت سیرت النبی علیٰ صاحبہا الصلوٰوۃ والسلام کے مکی دور کے حالات کے ضمن میں قبل ازیں بیان ہو چکے ہیں، کہ نبی اکرم  اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے سختیاں جھیلیں، استہزاء اور تمسخر برداشت کیا، ذہنی وجسمانی تشدد جھیلا، معاشرہ نے اہل ایمان کا بائیکاٹ کیا، شعب بنی ہاشم کی تین سالہ جاں گُسِل (۱محصوری سے سابقہ پیش آیا، ایمان لانے والے سعید وصالح نوجوانوں کو ان کے خاندان والوں نے گھروں سے نکالا، ان پر معیشت کا دائرہ تنگ سے تنگ تر کیا گیا، لیکن انہوں نے ان سب کو جھیلتے اور برداشت کرتے ہوئے توحید کا عَلم ہاتھ میں لئے توحیدی انقلاب اور توحیدی نظام قائم کرنے کے لئے سردھڑ کی بازی لگا دی. کسی ادنی ٰ درجہ میں ہی سہی، اس جماعت کے وابستگان میں بھی ان باتوں کی کوئی جھلک نظرآنا ضروری ہے. 

نکتۂ توحید کی تفسیر

توحید کی بنیاد پر جو نظام قائم ہوتا ہے صرف اور صرف وہی نظامِ عدل وقسط کہلانے کا استحقاق رکھتا ہے. یہ نظام توحید ہی سماجی سطح پر کامل انسانی مساوات قائم کرتا ہے. یعنی نسل، رنگ، زبان، پیشہ اور جنس کی بنیاد پر نہ کوئی بلند واعلیٰ ہوتا ہے نہ کوئی کم تروپست. پھر مرد وعورت کے منصفانہ طور پر حقوق اور فرائض کو متعین کرتا ہے. معاشی سطح پر یہ نظام ملک کے ہر شہری کی ناگزیر بنیادی ضروریاتِ زندگی کی کفالت کا ذمہ دار ریاست کو قرار دیتا ہے. آجر ومستأجر (مزدور وکارخانہ دار) کے درمیان عدل وانصاف اور اخوت کی فضا پیدا کرتا ہے. جاگیرداری کی لعنت کا مکمل خاتمہ کرتا ہے. اس نظامِ توحید میں سیاسی سطح پر حاکمیت مطلقہ صرف اللہ کی ہوتی ہے. ملک کی پارلیمنٹ یا اسمبلی وَ اَمۡرُہُمۡ شُوۡرٰی بَیۡنَہُمۡ ۪ کے اصول پر شریعت کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے دیگر انتظامی وفلاحی امور کے لئے قانون سازی کی مجاز (۲ہوتی ہے، لیکن وہ اللہ اور رسول یعنی کتاب وسنت میں بیان کردہ حدود وتعزیرات میں ایک شوشہ کے برابر بھی تغیر وتبدل کی مجاز نہیں ہوتی. 

اقدام کا مرحلہ

سوال یہ ہے کہ اگر ایک اسلامی تحریک مختلف مراحل سے گزر کر اقدام کے مرحلہ تک آگئی تو بحالاتِ موجودہ اقدام کی صورت کیا ہو گی؟ ظاہر ہے کہ اقدام کے بغیر نظام نہیں (۱) جو جان لینے کا موجب ہو (۲) صاحبِ اختیار بدلے گا. بیٹھے رہیں گے تو وہ نظام خود بخود تبدیل نہیں ہو گا. اس موقع پر یہ بات بھی گرہ میں باندھ لیجئے کہ محض وعظ ونصیحت سے بھی ہرگز ہرگز کوئی نظام تبدیل نہیں ہوتا. البتہ یہ ضرور ہوتا ہے کہ اس فاسد نظام میں چند نیک، صالح باکردار اور متقی لوگوں کا اضافہ ہو جاتا ہے. نظام کی تبدیلی کے لئے اقدام ناگزیر ہے، اس کے بغیر انقلاب نہیں آتا.