ایک غلط فہمی کا ازالہ

بعض حضرات کے ذہنوں میں جو یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ کسی مسلمان حکمران کے خلاف مسلح اقدام کی شریعت میں سرے سے کوئی گنجائش نہیں ہے تو یہ ایک بہت بڑا مغالطہ ہے. اگرچہ ہمارے یہاں یہ مسئلہ مختلف فیہ (۱ہے لیکن یہ بات بھی متفق علیہ نہیں ہے کہ کسی بھی حالات اور کسی بھی صورت میں کسی مسلمان حکمران کے خلاف خروج نہیں ہو سکتا یا بغاوت نہیں ہو سکتی. اس لئے کہ اس بات کو تسلیم کرنے کے معنی تو یہ ہوں گے کہ فُسّاق وفُجّارکی حکومت کبھی ختم نہیں ہو گی. جو فاسق وفاجر ایک بار مسلط ہو گیا تو پھر اس کا یہ تسلط دائمی ہو گا اور سوائے زبانی وکلامی نصیحت کرنے یا خاموش رہنے کے کوئی عملی اقدام کرنے کا حق اور اختیار باقی نہیں رہے گا. بلکہ اکثر حالات میں تو زبان پر بھی پہرے بٹھا دیئے جائیں گے کہ تنقید تو کجا، دلسوزی، ہمدردی اور خیر خواہی سے نصیحت کرنے پر بھی زبان بندی کر دی جائے گی. ایسی صورت میں ظاہر بات ہے کہ وہ تسلط ہمیشہ باقی رہے گا اور کبھی ختم نہیں ہو گا. 

اس سلسلے میں غور کا مقام ہے کہ حضرت حسینؓ اور عبداللہ بن زبیر بن العوام رضی اللہ عنہما نے حکومت کے خلاف جو اقدام فرمایا، تو ایک لمحہ کے لئے بھی یہ باور نہیں کیا جا سکتا کہ ان حضرات گرامی کا اقدام خلافِ شریعت تھا یا وہ کوئی ناجائز کام کر رہے تھے. معاذ اللہ، ثم معاذ اللہ! 
(۱) جس میں اختلاف ہو حضرت حسین بن علی اور حضرت عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہم اجمعین کے اقدامات ان حضرات کی اجتہادی غلطی تو ہو سکتی ہے، اس میں خطا کا امکان ہو سکتا ہے، لیکن اسے ناجائز کام یا ہوسِ اقتدار ہرگز نہیں کہا جا سکتا. اس بات کا شائبہ بھی دل میں آگیا تو عدالتِ خداوندی میں لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں. یہی معاملہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما کی رائے کے متعلق کہا جائے گا کہ اگر انہوں نے ان حضرات کو اقدام کرنے سے روکا اور یزید کی بیعت کر لی تو یہ ان کی اجتہادی رائے ہے جس میں خطاء کا امکان ہے، لیکن اس کو بھی حرام قرار نہیں دیا جا سکتا. دو انتہاؤ ں کے درمیان میں ہمارے سلف (۱وخلف (۲کے علمائے ربانی کی رائے یہی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی ناپسندیدہ مسلمان حکومت کے خلاف خروج کی دین میں گنجائش موجود ہے. تب ہی تو ان دونوں بزرگوں نے اقدامات کئے. البتہ اقدام کے مرحلے پر یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ اس کے لئے موقع ومحل بھی مناسب ہے یا نہیں. اس کا تعلق خالص اجتہاد سے ہے، جس میں خطاء وصواب (۳دونوں کا برابر امکان ہمیشہ موجود رہتا ہے. لہذا اس بات کو ذہن سے نکال دیجئے کہ مسلمان حکمران کے خلاف خروج اور بغاوت سرے سے ہو ہی نہیں سکتی.