انسانی تمدن کے بتدریج ارتقاء کے نتیجہ میں دوسری اہم تبدیلی یہ رونما ہوئی ہے کہ آج کے دور میں ’’ریاست‘‘ اور ’’حکومت‘‘ دو علیحدہ علیحدہ چیزیں تسلیم کی جاتی ہیں جب کہ آج سے دو سو سال قبل یہ صورت حال موجود نہیں تھی. صرف ’’حکومت‘‘ ہی کا وجود تھا، ’’ریاست‘‘ کا کوئی تصور نہ تھا. چنانچہ اِدھر کوئی شخص حکومت کے خلاف کھڑا ہوا اُدھر اسے فوراً باغی گردان کر گردن زدنی (۱قرار دے دیا گیا. لیکن یہ صورت حال اس دور میں بدل چکی ہے. انسانی فکر اور انسانی تمدن کا جو ارتقاء ہوا ہے اس کے تحت اب یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ ’’ریاست‘‘ ایک بالکل علیحدہ شے ہے اور حکومت صرف ریاست کے معاملات کو چلانے والا ایک انتظامی ادارہ ہے. کسی ملک کے رہنے والے دستوری اور آئینی طور پر درحقیقت ’’ریاست‘‘ کے وفادار ہوتے ہیں، حکومت کے نہیں. حکومت کی اطاعت تو وہ کرتے ہیں، لیکن دراصل جس شے کو وفاداری کہا جاتا ہے وہ ’’ریاست‘‘ کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے. پاکستان ایک ریاست ہے. اس ریاست کو چلانے والی ایک حکومت ہے جو اس ریاست کا ایک انتظامی ادارہ ہے. یہ حکومت بدلتی رہتی ہے، آج کسی کی ہے تو کل اور کسی کی. کبھی سول حکومت ہے تو کبھی فوجی، کبھی ایوب صاحب کی تھی، کبھی یحیی صاحب کی، پھر بھٹو صاحب آئے اور ان کے بعد مسندِ اقتدار پر جنرل ضیاء الحق صاحب متمکن ہوئے. پس حکومت تو آنی جانی شے ہے. جس شے کو دوام ہے، جو چیز تسلسل کی حامل ہے، وہ تو درحقیقت ریاست ہے، لہذا کسی بھی ملک کے رہنے والوں کی اصل وفاداری ریاست سے ہوتی ہے، حکومت سے نہیں. 

تمدن کے ارتقاء اور فکرِ انسانی کی وسعت کے نتیجہ میں آج پوری دنیا میں یہ بات مسلم سمجھی جاتی ہے کہ کسی حکومت کو بدلنے کا حق اس ملک کے رہنے والوں کو حاصل ہے. کوئی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کی حکومت مستقل قسم کی حکومت ہے. جو بھی کہے گا 
(۱) قتل کئے جانے کا سزاوار یہی کہے گا کہ یہ وقتی اور عارضی انتظام ہے، حالات خراب ہو گئے تھے، انتشار ہو گیا تھا، خانہ جنگی کا اندیشہ لاحق تھا، لہذا فساد کر روکنے کے لئے یہ فوری نوع کا اقدام بطور فوری علاج کیا گیا ہے، وقتی طور پر حکومت کے انتظام کو فوج نے سنبھالا ہے، ہمارا اس کو مستقل قائم رکھنے کا ارادہ نہیں ہے. اسی طرح کوئی بھی ایسا حکمران جو جمہوری طریقہ سے برسراقتدار آیا ہو یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اب اس کی یا اس کے خاندان کی اس ملک پر مستقل حکومت رہے گی. البتہ جہاں ملوکیت اور بادشاہت (Monarchy) قائم ہے وہاں معاملہ تاحال سابق انداز پر چل رہا ہے کہ وہاں خاندانی حکومتیں قائم ہیں. وہاں ریاست وحکومت کا کوئی علیحدہ تصور موجود نہیں ہے. وہاں کوئی سیاسی جماعت بنانے کی قطعی اجازت نہیں ہے. جہاں جماعت بنی اس کا مطلب یہ سمجھا جائے گا کہ بادشاہ صاحب کو ہٹانے کی کوئی کوشش پیشِ نظر ہے. تو وہ نظام چند ممالک میں تاہنوز چل رہا ہے. ’’اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو‘‘ کے مصداق فی الحال ان کا معاملہ ایک طرف رکھئے. البتہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ یہ زیادہ دیر چلنے والا نظام نہیں ہے. اس کے گرد جو دیواریں ہیں وہ بہت بوسیدہ ہو چکی ہیں اور گرا ہی چاہتی ہیں. اب کوئی دیر کی بات ہے کہ اس کو ختم ہونا ہی ہے اور وہ بات ہو کر رہے گی جو اپنے زوال کے وقت شاہ فاروق نے کہی تھی کہ ’’دنیا میں صرف پانچ بادشاہ رہ جائیں گے، چار تاش کے ہوں گے اور ایک انگلستان کا‘‘.اس لئے کہ انگریزوں نے بادشاہت کو ایک نمائشی اور آرائشی علامت (Decoration Piece) کی حیثیت سے اپنے یہاں سجا کر رکھا ہوا ہے اس کے سوا اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے. کیونکہ روایت پرستی اس قوم کے مزاج میں رچی بسی ہے لہذا وہ روایتی طور پر اس کو نباہ رہے ہیں، ورنہ ساری دنیا جانتی ہے کہ وہاں اصل اقتدار واختیار پارلیمنٹ کے ہاتھ میں ہے. 

اس نقطۂ نظر سے یہ بات جان لیجئے کہ ساری دنیا مانتی ہے کہ ایک ملک کے رہنے والوں کا یہ مسلّم حق ہے کہ وہ آئینی ودستوری طورپر حکومت بدل سکتے ہیں.چنانچہ وہ مدت سے قبل 
(mid-term) نئے انتخابات کا مطالبہ لے کر کھڑے ہو سکتے ہیں. یہ بالکل استثنائی صورت ہے کہ ہنگامی حالات سے فائدہ اٹھا کر کوئی جنرل بحیثیت چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اقتدار پر قبضہ کر لے اور رائے دہندگی کے حق کو معطل کر دے.

یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ دنیا میں اس وقت سب سے زیادہ قابل تسلیم بات یہی سمجھی جاتی ہے کہ ملک کے رہنے والوں کو سیاسی جماعتیں بنانے کا حق حاصل ہے اور ہر پارٹی کو یہ حق بھی حاصل ہے کہ وہ موجود الوقت حکومت کو ہٹانے کے لئے اپنی انتخابی مہم چلائے، اس پر دل کھول کر اور تلخ وتُند تنقید کرے، رائے عامہ کو اپنی پارٹی کے حق میں ہموار کرے تاکہ حکومت اس پارٹی کی قائم ہو سکے. زیادہ سے زیادہ پابندی یہ لگائی جا تی ہے کہ سرکاری ملازم کسی سیاسی پارٹی میں شامل ہو کر اس کی انتخابی جدوجہد میں شرکت نہیں کر سکتے اور انتخاب میں بھی کھڑے نہیں ہو سکتے. اس لئے کہ وہ ریاست کے ملازم اور کارکن ہیں اور ریاست کی طرف سے ان کو کچھ اختیارات ملے ہوئے ہیں. اگر وہ کسی سیاسی پارٹی سے عملاً وابستہ ہوں گے تو ان کے ہاتھ میں جو اختیارات ہیں ان کے غلط استعمال کا اندیشہ ہے. باقی رہا ووٹ دینے کا معاملہ، تو ان کا یہ حق برقرار رہے گا، اس پر کہیں کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی. عوام کی رائے سے حکومت میں تبدیلی ہو گی اور اس معاملہ میں سرکاری ملازمین ہی نہیں بلکہ فوجیوں کو بھی حق ہو گا کہ اپنی پسندیدہ پارٹی کو ووٹ دیں. تمدن کے ارتقاء نے یہ متبادل طریقے عطا کئے ہیں، جب کہ اس سے پہلے یہ صورت نہیں تھی. ریاست اور حکومت کا تصور گڈمڈ تھا اور حکومت کو ہی ریاست کا مقام بھی حاصل تھا. نیز حکومت کو بدلنے کی کوشش کو بغاوت سمجھا جاتا تھا. جب کہ اب صورت حال بالکل بدل چکی ہے. ریاست اور حکومت دو مختلف تصورات ہیں اور کسی بھی ملک کے باشندوں کو آئینی طور پر یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ حکومت کو بدل دیں.