اس میں کوئی شک نہیں کہ خلافتِ راشدہ کا نظامِ حکومت ہمارے نزدیک سب سے زیادہ محترم ہے. نبی اکرم  کے مشن کو آگے بڑھانے والا نظامِ حکومت خلافتِ راشدہ ہی کا تو ہے. لیکن اس احترام وتوقیر کے باوصف ایک بات جان لیجئے کہ اس کے ساتھ دو limitations (محدودیتیں) موجود تھیں جنہیں ملحوظ رکھنا ضروری ہے. ایک تو یہ کہ اس وقت بنیادی طور پر عرب میں ایک قبائلی معاشرہ قائم تھا. لہذا جہاں ایک قبائلی نظام پہلے سے موجود ہو اس میں اگر صرف سردارانِ قبائل سے مشورہ کر لیا جائے، ان کی آراء کو معلوم کر لیا جائے تو گویا ہر قبیلہ کے افراد سے مشورہ کا حق ادا ہو گیا.

دوسری یہ کہ سرداران کی حیثیت اپنے قبیلہ کے نمائندہ کی ہوتی تھی. لہذ ا وہاں رائے دہندگان کی فہرستوں تیاری، بیلٹ پیپر اور انتخابات کے کھکھیڑ مول لینے کی کوئی ضرورت نہیں تھی. وہاں قبائل کے سردار اور بڑے بڑے خاندانوں کے سربراہ اربابِ حل وعقد کہلاتے تھے. کسی معاملہ میں ان سے مشورہ ہو گیا تو گویا وَ اَمۡرُہُمۡ شُوۡرٰی بَیۡنَہُمۡ ۪ کا تقاضاپورا ہو گیا. جب کہ موجودہ دور میں یہ بات نہیں چل سکتی. آپ نے دیکھا کہ اس دور کے تقاضے کے تحت چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جیسے مطلق العنان حاکم کو بھی ریفرنڈم کا ڈرامہ رچانا پڑا. اس قسم کی کسی صورتِ حال کا ثبوت آپ کو خلفائے راشدین کے دور میں تو نہیں ملے گا. لہذا یہ کہنا کہ اس طرز کا سیاسی نظام جو خلافتِ راشدہ میں قائم تھا، جوں کا توں اس دور میں چل سکتا ہے، ایک مغالطہ ہے. اس دور میں حالات کی تبدیلی کے پیشِ نظر ایک ایسا نظام بنانے پر غور کرنا ہو گا جس میں اصول تو وہی رہیں، لیکن طریقِ کار کو تمدن کے ارتقاء کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے.

ایک قابلِ غور بات

حضرت عثمانِ غنیؓ کے خلاف جو تحریک اٹھی وہ یقینا ایک یہودی سازش تھی. شروع ہی سے اس کے عزائم مجرمانہ تھے، اس کے اندر نیک نیتی کا کوئی شائبہ بھی نہیں تھا. لیکن سوال یہ ہے کہ کسی نظامِ حکومت میں جہاں بدنیتی کے ساتھ یہ معاملہ ہو گیا، وہاں نیک نیتی کے ساتھ بھی تو یہ معاملہ ہو سکتا ہے. اس امکان کو خارج از بحث نہیں کیا جا سکتا. بالکل نیک نیتی کے ساتھ بھی کسی ملک میں ایسی تحریک اٹھ سکتی ہے کہ موجودہ حکمران ہمارے لئے قابلِ قبول نہیں ہیں، انہیں معزول ہونا چاہئے اور ان کی جگہ نئی قیادت کا انتخاب ہونا چاہئے. اس وقت تک ہمارے یہاں اس مقصد کے لئے کوئی ذرائع (Channels) موجود نہیں تھے. کوئی راستہ نہیں تھا کہ جس کے ذریعہ سے ایسا اختلافِ رائے سامنے آسکتا. درحقیقت تمدنی ارتقاء نے جو متبادل راستے دیئے ہیں انہی کے ذریعے اختلافِ رائے بھی سامنے آتا ہے اور وہ اختلاف صحت مند انداز میں حل (Resolve) بھی ہو سکتا ہے. چنانچہ تمدنی اور فکری ارتقاء نے اختلاف کے اظہار اور ان کو حل کرنے کے جو طریقے اور راستے (Channels) کھول دیئے ہیں اب ہمیں انہی کو سامنے رکھ کر اسلامی اصولوں کے مطابق اپنے لئے کوئی راہ معین کرنی ہو گی.

بنیادی انسانی حقوق

تمدنی ارتقاء نے اس بات کو بنیادی انسانی حقوق میں سے ایک حق قرار دیا ہے کہ ایک شخص اپنی جماعت بنائے اور لوگوں کو اپنی بات کا قائل کرے، زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنا ہم خیال بنائے اور وہ یہ کام کھلم کھلا اور برملا کرے. یہ اس کا آئینی حق ہے، اسے زیر زمین جانے کی ضرورت نہیں ہے. پُرامن طریقہ سے ہر پارٹی کو برسرِاقتدار پارٹی کے خلاف مہم اور تحریک چلانے کا حق پوری دنیا میں اب تسلیم کیا جاتا ہے.

ہمارے سوچنے کا کام

ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم تمدنی ارتقاء اور اس انقلاب کو سامنے رکھیں جس نے یہ متبادل طریقے دنیا کو دیئے ہیں کہ آج یہ امکان موجود ہے کہ حزبِ اختلاف قائم ہو. جب تک وہ پارٹی بغاوت نہیں کرتی اور پُرامن طور طریقے اختیار کرتی ہے، کوئی قانون اس کے خلاف نہیں جائے گا. وہ پارٹی تبلیغ کا حق رکھتی ہے، اپنے خیالات کی نشرواشاعت کا حق رکھتی ہے، جو لوگ اس کے خیالات کو قبول کریں، انہیں جمع کرنے اور منظم کرنے کا حق رکھتی ہے. اسے اپنے طریق تنظیم کو اپنی صوابدید کے مطابق اختیار کرنے کا حق حاصل ہے. وہ اپنے سربراہ کو صدر کہے، امیر کہے، یا کوئی اور اصطلاح اختیار کرے اسے حق ہے. جب تک یہ پارٹی بدامنی اور فساد کی کوئی صورت پیدا نہ کرے، خانہ جنگی کی صورت پیدا نہ کرے اس وقت تک اس کے وہ تمام حقوق مسلّمہ ہیں جو ابھی بیان ہوئے. ان میں سے کوئی حق بھی سلب نہیں کیا جا سکتا.