البتہ اس موقع پر ان شرائط کا اعادہ ضروری ہے جن کو اس اقدام یعنی مظاہروں اور دیگر احتجاجی طور طریقوں کو اختیار کرنے کی صورت میں ملحوظ رکھنا لازم ہے. یعنی اپنی طرف سے ہاتھ بالکل نہیں اٹھانا ہے، کسی قسم کی توڑ پھوڑ نہیں کرنی ہے، قریباً بارہ تیرہ برس تک مکہ مکرمہ میں صبرِمحض (Passive Resistance) کا جو معاملہ رہا ہے کہ ہر قسم کے جوروستم اور ظلم وتشدد کو صحابہ کرامؓ نے جس پامردی سے برداشت کیا ہے، اپنی طرف سے جوابی کارروائی تو درکنار مدافعت تک نہیں کی. وہی طرز عمل اس اقدام یعنی مظاہروں، گھیراؤ وغیرہ کے معاملہ میں اس انقلابی جماعت کو اختیار کرنا ہو گا. ان کا یہ عذر قابلِ قبول نہیں ہو گا کہ احتجاجی جلوس تو ہم نے نکالا تھا لیکن توڑپھوڑ کوئی اور کر گیا. اگر ایسی انقلابی جماعت کے اثرات اتنے نہیں ہیں کہ وہ عوام کو پُرامن رکھ سکے اور نہ اس کے پاس ایسے کارکن ہیں جو عوام کو کنٹرول کر سکیں اور ہر نوع کی بدامنی کو قابو میں رکھ سکیں تو ایسی صورت میں اس تنظیم کو مظاہروں کا حق نہیں ہے.

اس اقدام کا مرحلہ اسی وقت آئے گا کہ جب اس انقلابی جماعت کو اپنی امکانی حد تک یہ اندازہ ہو جائے اور یہ معلومات حاصل ہوں کہ ہمارے اپنے زیر اثر اور ہمارے تربیت یافتہ لوگ اتنے ہیں کہ وہ پُرامن طریق پر سڑکوں پر آکر مظاہرے کر سکتے ہیں اور ان کی اخلاقی ساکھ اتنی مضبوط ہے کہ ان کے مظاہروں کے دوران بدامنی کا کوئی حادثہ نہیں ہو گا. اور اگرچند شرپسند لوگ بدامنی پر اتر ہی آئیں تو ان کی تنظیمی طاقت اتنی مضبوط ہو کہ وہ ان اشرار کی گردنیں خود دبوچیں اور ان پر قابو پا کر انہیں حکومت کے حوالے کریں کہ یہ ہم میں سے نہیں ہیں، یہ تخریب کار عناصر ہیں، جو اس پُرامن اور عدم تشدد کی اسلامی تحریک کو سبوتاژ (۱کرنے کے لئے آگئے ہیں. اس انقلابی تنظیم کے تربیت یافتہ جلوس نہ بسوں کو جلائیں گے، نہ نیون سائن اور ٹریفک سگنلز توڑیں گے، نہ ہی وہ نجی یا سرکاری املاک کو نقصان پہنچائیں گے. ان جلوسوں اور مظاہروں کا مطالبہ یہ ہو گا کہ فلاں فلاں کام شریعت کی رو سے منکر ہیں، حرام ہیں، ہم ان کو کسی حال میں نہیں ہونے دیں گے. حکومت گرفتار کرے تو مظاہرین کوئی مزاحمت نہیں کریں گے. لاٹھی چارج کرے تو اسے جھیلیں گے. آنسو گیس کے شیل برسائے تو برداشت کریں گے. حتیٰ کہ گولیاں برسائے تو خوشی خوشی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کریں گے. لیکن نہ پیچھے ہٹیں گے اور نہ اپنے موقف کو چھوڑیں گے.

یہاں بعض حضرات کو یہ غلط فہمی لاحق ہو جاتی ہے اور بعض حضرات دانستہ یہ غلط فہمی 
(۱) sabotage ،تخریب پیدا کرتے ہیں کہ یہ تو حکومت وقت کے خلاف بغاوت اور مسلح تصادم کی بات ہے، حالانکہ انقلابی طریق کار کا مطلب لازمی طور پر مسلح بغاوت اور تصادم نہیں ہے، بلکہ موجودہ دور میں یہ بات قریباً خارج از بحث ہے. اس لئے کہ اولاً تو سابقہ ایک ایسے معاشرے اور ایک ایسی حکومت سے ہے جو قانوناً مسلمانوں پر مشتمل ہے. ثانیاً یہ کہ حکومت کے پاس باقاعدہ تربیت یافتہ اور جدید اسلحہ سے لیس فوج موجود ہے، جب کہ عوام الناس نہتے ہیں، لہذا ان دونوں اعتبارات سے فی زمانہ مسلح تصادم اور بغاوت کے راستے معدوم کے درجے میں آتے ہیں. چنانچہ اب سیرتِ نبوی کی روشنی میں وہ طریقہ اختیار کرنا ہو گا جس سے دورِ جدید کے تمدنی ارتقاء نے لوگوں کو واقف کرایا ہے. آج عوام عدم تشدد کے اصول پر پُرامن اور منظم مظاہروں کے ذریعے اپنے عزم اور قوت کا اظہار کرتے ہیں. اس کیلئے ہمیں قرآن وحدیث سے جو رہنمائی ملتی ہے اسے میں ’’نہی عن المنکر بالید‘‘ سے تعبیر کرتا ہوں.