مسلم شریف کی متذکرہ بالا جو دو روایتیں تشریح وتوضیح کے ساتھ بیان ہوئیں، ان کو سامنے رکھ کر غور کیجئے. ان دونوں احادیث کو ہمارے پیشِ نظر مسئلہ کو حل کرنے کے لئے کلید کی حیثیت حاصل ہے. اب راستہ یہ ہے کہ کسی مسلمان ملک میں دین کو اس کی کامل شکل میں قائم ونافذ کرنے کے لئے کوئی تحریک اٹھے. اس تحریک کے وابستگان خود اپنی انفرادی زندگیوں پر دین کو نافذ کر چکے ہوں، تربیت اور تزکیہ کے مراحل طے کر چکے ہوں، انہوں نے حرام کو بالفعل ترک کیا ہو اور سنت کو انہوں نے عملاً اختیار کیا ہو. پھر یہ لوگ منظم ہوئے ہوں، بنیانِ مرصوص بن چکے ہوں، یہ کسی تنظیم کے ساتھ منسلک ہو کر اس کے امیر، کمانڈر اور قائد کے حکم پر ڈسپلن کے ساتھ حرکت کرنے کی صلاحیت پیدا کر چکے ہوں، سمع وطاعت کے عادی ہو چکے ہوں. تو اب یہ لوگ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا کام طاقت کے ساتھ کریں گے. یہ کھڑے ہو جائیں گے اور اعلان کریں گے کہ ہم منکرات کے کام نہیں ہونے دیں گے. یہ بات جان لیجئے کہ اپنے مطالبات منوانے کے لئے پُرامن طور پر طاقت کا مظاہرہ کرنا اب دنیا میں ہر ملک کے رہنے والوں کا تسلیم شدہ حق ہے. اگر سیاسی حقوق کے حصول اور بحالی کے لئے، مہنگائی کے خلاف یا کچھ دیگر قومی مسائل کے حل کے لئے مظاہرے کئے جا سکتے ہیں، پکٹنگ اور گھیراؤ کیا جا سکتا ہے تو دین نے جن کاموں کو منکرات قرار دیا ہے ان کے خلاف مظاہرے کیوں نہیں کئے جا سکتے؟ ان کو چیلنج کیوں نہیں کیا جا سکتا؟ لیکن یہ مظاہرے پُرامن ہوں گے. کہیں فساد نہیں ہو گا، کسی کو تکلیف نہیں ہو گی، قومی دولت کا کوئی ضیاع نہیں ہو گا. اس تنظیم کے وابستگان ساری تکلیفیں اپنے اوپر جھیلنے کے لئے تیار ہوں گے، ساری مصیبتیں خود برداشت کریں گے، اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں نکلیں گے. اگر حکومت وقت گولیاں چلائے گی تو اپنے سینے پیش کریں گے. 

اگر یہ معاملہ ہو جائے اور یہ مرحلہ آجائے تو یہ بات جان لیجئے کہ آخر کب تک. اس مسلمان ملک کی مسلمان پولیس ان پر لاٹھیاں برسائے گی اور مسلمان فوج کب تک گولیاں چلا کر ان نہتے مظاہرین کو مارے گی جو صرف اللہ کے لئے منکرات کے خلاف نکلے ہوں؟ پھر یہ فوج کتنوں کو مارے گی؟ یہ بات بھی اچھی طرح جان لیجئے کہ کوئی جابر سے جابر حکمران بھی ایک حد سے آگے نہیں جا سکتا. 

ایران کی مثال

اس کا سب سے بڑا نمونہ ہمارے سامنے شہنشاہِ ایران کا انجام ہے. وہ شاہِ ایران جس کے پاس ایشیا کا سب سے بڑا اسلحہ خانہ تھا، جس کے پاس ساوک جیسی سفاک پولیس تھی، جس کے مقابلہ کی سفاک پولیس کسی کمیونسٹ ملک میں توشاید موجود ہو. باقی دنیا میں اس کے مقابلے کی کوئی پولیس موجود نہیں. جس طرح کے مظالم اس ایرانی پولیس نے ڈھائے ہیں اور جس خوفناک قسم کی اذیتیں اس نے انقلابیوں کو دی ہیں، اس کی مثال موجودہ دور کے کسی ملک میں مشکل ہی سے ملے گی. لیکن شہنشاہ ایران، جو خود کو ’’ آریہ مہر‘‘ کہلواتا تھا اور جو سائرس ثانی بننے کے خواب دیکھ رہا تھا، اس کی ساری طاقت اور سارا دبدبہ ان سرفروشوں کی قربانیوں کے آگے خس وخاشاک کی طرح بکھر کر رہ گیا جو اس کے خلاف مظاہروں کی صورت میں جان دینے کے لئے سڑکوں پر آگئے تھے. بالآخر اس کی پولیس عاجز آگئی اور فوج نے ان مظاہرین پر گولیاں چلانے سے انکار کر دیا. نتیجہ یہ نکلا کہ اس کو اپنا ملک چھوڑ کر فرار ہونا پڑا اور حد تو یہ ہے کہ مرنے کے بعد اسے اپنے وطن میں دفن ہونے کے لئے جگہ بھی نہ مل سکی. اس کے دوست ملک نے اس کے ساتھ وہ سلوک کیا جو کسی مہلک متعدی مرض میں مبتلا کے ساتھ کیا جاتا ہے.

اس سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ جب ایک منظم انقلابی جماعت راہِ حق میں جان دینے کے لئے آمادہ ہو جائے تو اسے ملک کے عوام کی اتنی اخلاقی اور عملی حمایت حاصل ہو جاتی ہے کہ پھر اسے کچلنا اور ختم کردینا آسان نہیں رہتا. ایسی جماعت کو بغاوت کا اعلان کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں ہوتی، نہ اسے ہتھیار اٹھانے کی ضرورت ہوتی ہے، بلکہ اس کا 

حال تو یہ ہوتا ہے کہ ؏ ’’ جب وقت شہادت آتا ہے دل سینوں میں رقصاں ہوتے ہیں‘‘
کوئی طاقت ایسے جانبازوں اور سرفروشوں کا راستہ نہیں روک سکتی. 

تین ممکنہ نتائج

اس طریق کار کے تین ممکنہ نتائج نکل سکتے ہیں. ایک یہ کہ حکومت اگر ان مظاہروں کے نتیجہ میں پسپائی اختیار کرے، یعنی منکرات کو ختم کرنا شروع کر دے تو اور کیا چاہئے؟ ایک منکر کے بعد دوسرے اور دوسرے کے بعد تیسرے منکر کے خلاف مظاہرے جاری رہیں گے. اس طرح اگر ہم ایک ایک کر کے منکرات کو ختم کراتے چلے جائیں تو اسلامی انقلاب آجائے گا. تبدیلی برپا ہو جائے گی اور پورے کا پورا نظام صحیح ہو جائے گا. لیکن جب تک نظام مکمل طور پر اسلامی نہیں ہو گا یہ جدوجہد جاری رہے گی.

دوسرا ممکن نتیجہ یہ نکل سکتا ہے کہ حکومت وقت اسے اپنی بقاء، اپنی انا اور اپنے مفادات کے تحفظ کا مسئلہ بنا لے اور طاقت سے اس اسلامی تحریک کو کچلنے کی کوشش کرے. اس موقع پر ذرا ٹھہر کر حکومت وقت کی ماہیت وہیئت کو سمجھ لیجئے کہ وہ کیا ہوتی ہے. ہر حکومت کسی نہ کسی طبقہ کی نمائندگی کر رہی ہوتی ہے. وہ معاشرے کے کسی طاقتور طبقہ کے مفادات کی محافظ بن کر بیٹھی ہوتی ہے. اسلام کا نظامِ عدل وقسط ان طبقات کے لئے پیغامِ موت لے کر آتا ہے. لہذا حکومت وقت کسی ایسی تحریک کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کرتی جس کے کامیاب ہونے کے نتیجہ میں سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ استحصالی نظام ختم ہو جائے اور اسلام کا عادلانہ ومنصفانہ نظام قائم ہو جائے. لہذا وہ ریاست کی پولیس اور فوج کو اس تحریک کو کچلنے کے لئے بے دریغ استعمال کرے گی.

چنانچہ لاٹھیاں برسیں گی، آنسو گیس کے شیل پھینکے جائیں گے، گولیوں کی بوچھاڑ آئے گی، گرفتاریاں ہوں گی، دارورسن کے مراحل آئیں گے. لیکن اگر لوگ اللہ کی راہ میں قربانیاں حتیٰ کہ جان تک دینے پر تیار ہوں اور ثابت قدمی سے میدان میں ڈٹے رہیں تو پولیس کتنوں کو گرفتا کرے گی؟ فوج کتنوں کو اپنی گولیوں سے بھونے گی؟ اگر تحریک کے کارکنوں نے صبرواستقامت کا ثبوت دیا تو پورے وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ بالآخر پولیس اور فوج جواب دے دے گی کہ یہ مظاہرین ہمارے ہی ہم مذہب اور ہم وطن ہیں، ہمارے ہی اعزہ واقرباء ہیں، یہ لوگ اپنی کسی ذاتی غرض کے لئے میدان میں نہیں آئے ہیں بلکہ اللہ کے دین کی سربلندی اور اس کے قیام کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے لئے نکلے ہیں، تو آخر ہم کب تک ان کو اپنی گولیوں سے بھونتے چلے جائیں؟ نتیجہ یہ نکلے گا کہ حکومت کا تختہ الٹ جائے گا اور تحریک کامیابی سے ہمکنار ہو گی، جیسا کہ ایران میں ہوا کہ شہنشاہ ایران جیسے آمر مطلق کو بھی ایسی صورت حال میں باحسرت ویاس ملک چھوڑ کر فرار ہونا پڑا . تو یہ دو ممکنہ صورتیں تو تحریک کی کامیابی کی ہیں.

ایک تیسرا نتیجہ یہ نکل سکتا ہے کہ حکومت وقت اس تحریک کو کچلنے میں کامیاب ہو جائے. اس صورت میں جن لوگوں نے اس راہ میں جانیں دی ہوں گی، ان کی قربانیاں ہرگز ضائع نہیں ہوں گی. وہ ، ان شاء اللہ العزیز، اللہ تعالیٰ کے یہاں اجر عظیم اور فوز کبیر سے نوازے جائیں گے. یہ واضح رہنا چاہئے کہ ہم نظام کو بالفعل بدلنے کے مکلف اور ذمہ دار نہیں ہیں، البتہ اس کو بدلنے کی جدوجہد ہم پر فرض ہے. مزید براں انہی جان نثاروں اور سرفروشوں کے خون اور ہڈیوں کی کھاد سے، ان شاء اللہ، جلد یا بدیر کوئی نئی انقلابی اسلامی تحریک ابھرے گی جو طاغوتی استحصالی اور جابرانہ نظام کو للکارے گی اور اس طرح وہ وقت آکر رہے گا جس کی خبر الصادق المصدوق  نے دی ہے کہ پورے کرۂ ارض پر اللہ کا دین اسی طرح غالب ہو کر رہے گا جس طرح آپ کی حیاتِ طیبہ میں جزیرہ نمائے عرب پر غالب ہوا تھا. 

اقول قولی ھذا واستغفر اللہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات