تقدیر و مستقبل

اسلام میں تقدیر کے معنی مستقبل کو خوش آمدید کہنے کے ہیں۔ لیکن ہمارے معاشرے میں اسے کسی بھی طرح کے مثبت عمل کو نہ کرنے کا بہانا بنا لیا گیا ہے۔ جو میری نظر میں کفر سے کم نہیں، کیونکر ہو ہم انکاری اُس ذات سے جو صرف دیتا ہے بہتر ہمیں۔ بجائے کہ قرآن کی اس آیات کے ذریعے ہم مستقبل کو دیکھیں،

وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا - 17:36
اور نہ پیچھے پڑ جس بات کی خبر نہیں تجھ کو بیشک کان اور آنکھ اور دل ان سب کی اس سے پوچھ ہو گی

ہم لوگ اپنے ہی زہن میں ایک فساد کو جن ڈالتے ہیں کہ شاید کام جو میں کرنے جا رہا ہوں وہ میری تقدیر میں لکھا ہی نہیں ہے۔ بجائے کہ غائب کی اُس بات کے پیچھے پڑنا جس کا علم ہمیں ہے ہی نہیں۔

اور اس آیت میں إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ عمل کا ایک اصول واضع طور پر بیان کر دیا گیا ہے۔ سنو اور دیکھو اور اس سے جو نتیجا نکلے اُس پر چلو۔ جب ہم اس اصول کے بجائے اپنے دماغ کی فساد کو اپنانتے ہیں تو ہماری زندگی میں بھی فساد واقع ہوتا ہے۔

سورة لقمان کی آخری اس آیت سے بات واضع ہو جاتی ہے۔

إِنَّ اللَّهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ - 31:34
بیشک اللہ کے پاس ہے قیامت کی خبر اور اتارتا ہے مینہ اور جانتا ہے جو کچھ ہے ماں کے پیٹ میں اور کسی جی کو معلوم نہیں کہ کل کو کیا کرے گا اور کسی جی کو خبر نہیں کہ کس زمین میں مرے گا تحقیق اللہ سب کچھ جاننے والا خبردار ہے۔

اس آیت میں وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ (کسی جی کو معلوم نہیں کہ کل کو کیا کرے گا) اس بات وہ واضع کر دیا گیا ہے تم جانتے ہی نہیں مستقبل میں کیا ہے تو بس اپنے رب کی دین پر خوش ہو جاؤ وہ تمہیں بےشک مایوس نہیں کرے گا۔