اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَکَفٰی وَالصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی، خُصُوْصًا عَلٰی اَفْضَلِھِمْ وَخَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ مُحَمَّدٍ الْاَمِیْنِ وَعَلٰی آلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ. اَمَّا بَعْدُ فَقَالَ اﷲُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی کَمَا وَرَدَ فِیْ سُوْرَۃِ الْاَحْزَابِ:

اعوذ باﷲ من الشیطٰن الرّجیم بسم اﷲ الرّحمٰن الرّحیم 

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلۡ لِّاَزۡوَاجِکَ وَ بَنٰتِکَ وَ نِسَآءِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ یُدۡنِیۡنَ عَلَیۡہِنَّ مِنۡ جَلَابِیۡبِہِنَّ ؕ ذٰلِکَ اَدۡنٰۤی اَنۡ یُّعۡرَفۡنَ فَلَا یُؤۡذَیۡنَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿۵۹﴾ (الاحزاب)


حضرات! مطالعۂ قرآن وسنت کے نتیجے میں میری کچھ آراء اور نظریات اسلام کے سیاسی‘ معاشرتی اور معاشی نظاموں کے بارے میں مستقل طور پر قائم ہیں‘جن کو تفہیم وتعلیم کے مقصد کے تحت کچھ عرصے سے ان اجتماعاتِ جمعہ میں کتاب وسنت کے دلائل کے ساتھ پیش کرتا رہا ہوں لیکن مَیں ان میں سے کسی مسئلہ کو بھی ایشو (issue) بناکر کوئی تحریک چلانا صحیح نہیں سمجھتا. مثلاً اس وقت بحالی جمہوریت کی تحریک چلائی جائے تو اس سے سیکولر ڈیموکریسی کے نام لیوا حضرات کو تقویت حاصل ہو گی. اسی طرح اجارہ داری اور غیر اسلامی اصولوں پر چلنے والی مزارعت یا مضاربت کے خلاف کوئی مہم چلائی جائے تو اس کا فائدہ سوشلسٹوں اور کمیونسٹوں کو پہنچے گا. اس لیے میرے نزدیک ایسے اقدامات سے اسلام کو فائدہ کے بجائے نقصان پہنچنے کا زیادہ احتمال ہے. 

حقیقی اور واقعی اسلامی نظام کے نفاذ کے ضمن میں میرا نظریہ یہ ہے کہ یہ اوپر سے نیچے تھوپنے والا معاملہ نہیں ہے‘یعنی اگر صاحب اقتدار طبقہ چاہے کہ وہ اسلام کو نافذ کردے تو ایسا اقدام مستحکم اور پائیدار نہیں ہو گا. اس کے لیے ضروری ہے کہ عملی سیاست سے صرفِ نظر کرتے ہوئے خالصتاً نُصح وخیر خواہی کے جذبے اور رضائے الٰہی کے نصب العین کو اختیار کر کے ایک مؤثر تحریک بپا ہو اور وہ معاشرے میں عبادتِ ربّ کی دعوت پر اپنی تمام توانائیوں اور توجہات کو مرکوز رکھے‘لوگوں میں بحیثیت مسلمان جینے اور مرنے کا جذبۂ صادق پیدا کرے‘ان کو حقیقی طور پر اللہ کا بندہ بننے کی نصیحت ووصیت کرے اور ان کے دلوں میں ایمانِ حقیقی کے بیج کی آبیاری کرے‘ان کو اس مقصد کے لیے تیار کرے کہ وہ اپنے اپنے گھروں میں اور خود اپنے اوپر اپنی انفرادی زندگی کے دائرۂ عمل میں اسلام کو نافذ کریں‘ تاکہ پھر ملک میں اجتماعی سطح پر صحیح اسلامی نظام نافذ ہو سکے. یہ تحریک جتنی جتنی مضبوط جڑیں پکڑتی رہے گی اُسی تناسب سے پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ اور اس کے استحکام کے امکانات روشن ہوتے چلے جائیں گے.

اس موقع پر ایک اشکال کا ازالہ ضروری ہے‘وہ یہ کہ جب میرا نظریہ یہ ہے کہ اسلام مضبوط بنیادوں پر اوپر سے نہیں بلکہ نیچے سے صحیح کام کرنے کے نتیجے میں نافذ ہو سکے گا تو پھر مَیں صدر محمد ضیاء الحق صاحب سے یہ کیوں مطالبہ کرتا رہتا ہوں کہ وہ پورے کا پورا اسلام نافذ کریں اُن سے مَیں یہ اس لیے کہتا ہوں کہ ان کا موقف یہ ہے کہ انہوں نے اقتدار سنبھالا ہی اس لیے ہے کہ وہ اس ملک میں اسلام کی جڑوں کو مضبوط کر کے اس کو فی الواقع نافذ کرنا چاہتے ہیں. لہذا جو شخص اس موقف اور مقصد کے ساتھ ملک کا اقتدار ہاتھ میں رکھنے کا مدعی ہو اور جس کے متعلق رائے بھی یہ ہو کہ وہ ایک مخلص اور پابند شریعت مسلمان ہے تو ایسے شخص 
سے یہ مطالبہ بالکل جائز اور حق بجانب ہے کہ وہ اپنے قول اور دعوے کا عملی ثبوت پیش کرے‘ اس کے بغیر اس کے برسر اقتدار رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے. پھر یہ کہ اسلام کل کا کل نافذ کیا جائے. اس کو جزوی طور پر نافذ کرنے اور تدریج کے فلسفے کو پیش نظر رکھنے کانظریہ صحیح نہیں ہے‘بلکہ ہو سکتا ہے کہ ایسے جزوی اقدامات اسلام کو بد نام کرنے کا ذریعہ بنیں صدر محمد ضیاء الحق صاحب کا ایک یہ جملہ بھی حال ہی میں اخبارات میں نقل ہوا ہے کہ ’’میں نے سارے اسلام کو نافذ کرنے کا ٹھیکہ نہیں لیا ہے‘‘. اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اخبارات میں رپورٹنگ غلط ہوئی ہے یا واقعی صدر صاحب نے یہ بات کہی ہے! بہر حال قرآن حکیم کا حکم تو یہی ہے کہ:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ادۡخُلُوۡا فِی السِّلۡمِ کَآفَّۃً (البقرۃ: ۲۰۸
’’اے ایمان والو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ. ‘‘

اور کتاب وشریعت کے بعض حصوں پر ایمان لانے اور بعض حصوں کے انکار پر بڑی سخت وعید آئی ہے. اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 

اَفَتُؤۡمِنُوۡنَ بِبَعۡضِ الۡکِتٰبِ وَ تَکۡفُرُوۡنَ بِبَعۡضٍ ۚ فَمَا جَزَآءُ مَنۡ یَّفۡعَلُ ذٰلِکَ مِنۡکُمۡ اِلَّا خِزۡیٌ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یُرَدُّوۡنَ اِلٰۤی اَشَدِّ الۡعَذَابِ ؕ (البقرۃ:۸۵
’’تو کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو؟ پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں ان کی سزا اس کے سوا کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل وخوار ہو کر رہیں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیے جائیں !‘‘

یہ وعید یہود کے اُس طرز عمل پر وارد ہوئی ہے کہ انہوں نے شریعت کے احکام کی تقسیم کررکھی تھی‘ کچھ کو مانتے تھے اور کچھ کا انکار کرتے تھے‘ یعنی ان کو عملی زندگی سے خارج کررکھا تھا لیکن اس آیت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جو کوئی بھی اللہ کی شریعت کے ساتھ یہ معاملہ کرے گا وہ بھی اسی وعید کا مستوجب ہو 
گا‘چاہے وہ امت محمد علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام ہی سے تعلق رکھتا ہو. 

اکتوبر ۱۹۷۷ء میں مرکزی انجمن خدام القرآن کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی قرآن کانفرنس کے لیے جناب جنرل محمد ضیاء الحق صاحب نے ایک پیغام بھی ارسال کیا تھا. اس موقع پر میں نے ان کو اجلاس میں موجود متصور کر کے کہا تھا کہ ’’جنرل صاحب! آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایک بڑے امتحان میں ڈالا ہے. آپ کو چاہیے کہ اللہ کے نام اور اس کے بھروسے پر پورے کے پورے اسلام کو نافذ کریں. اِس وقت نظامِ مصطفی  کی تحریک کی وجہ سے ماحول بھی سازگار ہے‘‘. میں نے یہ بھی عرض کیا تھا کہ ’’جنرل صاحب! آپ پورے اسلام کا نفاذ کیجیے! اگر یہ معاشرہ اس وجہ سے آپ کو اٹھا کر پھینک دے تو کوئی بات نہیں. اس معاشرے نے تو بڑے بڑوں کو دوسرے اسباب سے اٹھا کر پھینک دیا ہے. اگر اسلام کے نفاذ کی وجہ سے کوئی شخص اقتدار اور منصب سے ہٹا دیا جائے تو اس سے بڑی سعادت اور کوئی نہیں‘‘. اب بھی میں ان سے یہی کہتا ہوں اور کہتا رہوں گا‘ ماننا یا نہ ماننا ان کا کام ہے. 

حال ہی میں خواتین کے قضیے کے سلسلے میں ان کی یہ بات بھی اخبارات میں نقل ہوئی ہے کہ ’’اتھارٹی ڈاکٹر اسرار کے پاس نہیں‘میرے پاس ہے‘‘. حقیقی اتھارٹی تو اللہ کے ہاتھ میں ہے‘لیکن اس عالم تشریعی میں اس وقت اتھارٹی ان ہی کے ہاتھ میں ہے. اب اگر وہ اس کو اسلام کے نفاذ کے لیے استعمال کریں اور معاشرہ اس کو قبول کر لے تو فَھُوَ المُراد‘ لیکن اگر معاشرہ ردّ کر دے تو بھی ان شاء اللہ آخرت میں وہ سرخرو ہوں گے. لیکن اگر معاملہ اس کے بر عکس رہا‘جیسا کہ اب تک چلا آ رہا ہے‘تو اس کی جواب دہی بھی ان کو خود ہی کرنی ہو گی‘ میں یا کوئی اور اس ضمن میں ان کے کام نہیں آ سکے گا. 
وَ اتَّقُوۡا یَوۡمًا لَّا تَجۡزِیۡ نَفۡسٌ عَنۡ نَّفۡسٍ شَیۡئًا وَّ لَا یُقۡبَلُ مِنۡہَا عَدۡلٌ وَّ لَا تَنۡفَعُہَا شَفَاعَۃٌ (البقرۃ : ۱۲۳صدر صاحب کے اس جملے پر بعض اخبار والوں نے چاہا کہ میں کوئی تبصرہ کروں‘اور اس طرح وہ مجھ سے کوئی تیز و تند جملہ کہلوا لیں. میں نے کہا کہ صدر صاحب نے حقیقت کا اظہار کیا ہے‘اس پر میں کیا تبصرہ کروں؟ ایک رپورٹر نے کہا آپ تو مجلس شوریٰ کے رُکن ہیں. میں نے جواب میں عرض کیا کہ اس مجلس شوریٰ کے پاس بھی کوئی اختیار نہیں ہے. جو لوگ ایسا سمجھتے ہیں وہ مغالطے میں ہیں. یہ تو صرف مشورہ دینے کا ایک اجتماعی پلیٹ فارم ہے.