معاشرتی بے راہ روی کا تجزیہ اور تشخیص

موجودہ مسلم معاشرے کے متعلق میرا تجزیہ اور میری تشخیص یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں جو اعتقادی اور عملی گمراہیاں اور بے راہ روی پوری طرح مسلط ہے اس کا اصل سبب صدیوں کے بتدریج انحطاط واضمحلال اور خاص طور پر انگریزوں کے دورِ غلامی اور خدا نا آشنا مغربی افکار ونظریات اور تہذیب کے ذہنی استیلاء کی وجہ سے ہمارے ایمان میں ضعف کا پیدا ہو جانا اور دین کی حقیقی تعلیم وحکمت سے دور ہو جانا ہے. یہی ضعف ِ ایمان اور دین سے بعد ہی ہماری تمام خرابیوں کی اصل جڑ ہے اور اسی جڑ سے خرابیوں کی بے شمار شاخیں پھوٹی ہوئی ہیں. ان شاخوں سے اُلجھنے اور ان سے کشتی لڑنے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا. اصل میں ہدف اس جڑ کو بنانا ہو گا. چنانچہ میں انہی اجتماعاتِ جمعہ میں اپنا یہ موقف آپ کے سامنے بیان کر چکا ہوں کہ میری جو عملی جدو جہد ہے اور میری جتنی حقیر توانائیاں اور قوتیں‘صلاحیتیں اور اوقات ہیں وہ دو کاموں میں صرف ہو رہے ہیں.

پہلا کام یہ ہے کہ قرآن حکیم کے پیغام کی زیادہ سے زیادہ وسیع پیمانے اور اعلیٰ علمی سطح پر نشر واشاعت کرنے کی ہر امکانی کوشش کرنا. اسے آپ دعوتِ رجوع الی القرآن کہہ لیں یا تعلّم و تعلیم ِ قرآن کہہ لیں. بہر حال میری ان مساعی میں پیش نظر یہ ہے کہ قرآن مجید ہی در اصل ایمان کا حقیقی منبع اور سرچشمہ ہے. ایمان کے ضعف اور اضمحلال کا اگر ازالہ ہو سکتا ہے تو اسی قرآن کے ذریعے ہو سکتا ہے. اس مقصد کے لیے مرکزی انجمن خدام القرآن قائم ہوئی ہے.

پھر جب حقیقی ایمان پیدا ہو جائے اور اپنے حقیقی دینی فرائض کا احساس ابھرے تو جدو جہد کی دوسری سطح یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو منظم کیا جائے‘تاکہ جماعتی شکل اختیار کر کے یہ لوگ کوشش کریں کہ معاشرے میں دعوتِ عبادتِ ربّ وسیع پیمانے اور محکم بنیادوں پر برپا ہو. اس کے لیے تنظیم اسلامی کا قیام عمل میں آیا ہے‘جو ابھی ایک بہت ہی مختصر سا قافلہ ہے‘ لیکن بہر حال میری توانائیاں اس میں بھی لگ رہی ہیں تو یہ دو اصل کام ہیں جن میں میں ہمہ تن وہمہ وقت لگا ہوا ہوں. باقی میرے دوسرے سارے کام ضمنی ہیں. اگر مجلس شوریٰ میں میری شمولیت ہے تو یہ ایک ضمنی مصروفیت ہے‘بنیادی نہیں ہے. اس کی گواہی ہر وہ شخص دے گا جو مجھ سے کسی درجے میں بھی واقف ہو. سولہ سال سے تو میں لاہور ہی میں ہوں‘اور میرا حسن ظن ہے کہ یہاں ان سولہ سالوں میں قرآن حکیم کے پیغام کی نشر واشاعت میں میری حقیر مساعی سے لاہور کا تعلیم یافتہ طبقہ بخوبی واقف ہو گا. 

میں نے گزشتہ خطابِ جمعہ میں عرض کیا تھا کہ میری ان دونوں سطحوں پر مساعی کا اصل ہدف ہے ایک ’’اسلامی انقلاب‘‘. اصلاحی طرز یا سیاسی نوع کی سعی وکوشش کے ذریعے اقامت ِدین کے فرض کی ادائیگی میرے نزدیک اگر نا ممکن نہیں تو بھی محال کے درجے میں ضرور ہے. اس کے لیے ایک انقلابی نوعیت کی جد وجہد کی ضرورت ہے. اس ضمن میں میں نے چونکہ ایرانی انقلاب کا بھی نام لے دیا تھا لہذا اِس پر اخبارات میں آگیا کہ ’’ڈاکٹر اسرار انتہا پسند ہے اور وہ یہاں ایرانی طرز کا انقلاب لانا چاہتا ہے‘‘ حالانکہ میں نے اس موقع پر بڑی صراحت سے عرض کیا تھا کہ میں اس انقلاب پر نفیاً یا اثباتاً کوئی تبصرہ کرنا نہیں چاہتا‘بلکہ صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس انقلاب نے اس بات کی ایک جھلک دکھا دی ہے کہ ’’انقلاب‘‘ کسے کہتے ہیں. پوری دنیا نے اس کو تسلیم کیا ہے کہ انقلابی عمل اگر کوئی شے ہے تو ایران نے دکھا دیا ہے کہ وہ شے کیا ہے‘قطع نظر اس سے کہ اس انقلابِ ایران کا کتنا حصہ صحیح ہے کتنا غلط‘ان کی حکمت عملی پوری کی پوری درست ہے یا اس میں تقصیر ہے. پھر یہ کہ وہاں کے حالات کی صحیح اطلاعات ہم تک نہیں پہنچ پا رہیں‘بلکہ بڑی متضاد قسم کی خبریں آتی رہتی ہیں.

لہذا ہم اس کی تائید میں یا اس کے خلاف کوئی بات کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں. لیکن جس چیز کا نام ’’انقلاب‘‘ ہے اس کی جھلک وہاں موجود ہے. میں نے ہرگز یہ نہیں کہا کہ بعینہٖ ایران کی طرز کا انقلاب برپا کرنا میرے پیش نظر ہے. میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ جیسے انقلابِ فرانس اور انقلابِ روس نے دنیا کو چونکا دیا تھا اسی طرح انقلابِ ایران نے دنیا کو ایک بار پھر چونکا دیا ہے. اب ہم انقلابِ فرانس اور انقلابِ روس کو اپنے لیے نمونہ تو نہیں سمجھتے. ان میں سے کوئی انقلاب بھی ہمارے لیے قابل پیروی اور لائق ِ اتباع نہیں ہے. میرا عرض کرنے کا مقصد یہ تھا کہ یہ بات واضح ہو جائے کہ انقلاب کسی جزوی تبدیلی یا محض حکمران ہاتھوں کی تبدیلی کا نام نہیں ہوتا‘بلکہ ایک نظام کے مقابلے میں بالکلیہ کوئی دوسرا نظام رائج ونافذ ہونے کے عمل کو انقلاب کہا جاتا ہے. لہذا میری حقیر سی کوششوں کا ہدف یہ ہے کہ صحیح اسلامی بنیادوں پر انقلاب برپا ہو‘ جس میں لوگوں کے عقائد بدلیں‘ ان کے اَعمال و اَفعال بدلیں‘ ان کی اَقدار بدلیں‘ ان کے شب و روز بدلیں‘ ان کو دنیا کے مقابلے میں آخرت عزیز ہو‘ رضائے الٰہی ان کا مقصود ومطلوب بن جائے اور گھر سے لے کر بازار تک اور ایوانِ حکومت سے لے کر بین الاقوامی سطح تک ان کے تمام معاملات اللہ کے دین کے مطابق انجام پائیں.