روزنامہ جنگ کے جمعہ میگزین میں شائع ہونے والے میرے انٹرویو میں خواتین سے متعلق میرے نظریات کو جس طرح اچھالا گیا ہے‘ یہ میرے مستقل تجزیے اور مستقل موقف کے مطابق نہیں ہے. بہر حال اس انٹرویو میں شامل چند جملوں پر ہماری خواتین کے ایک طبقے اور ان کے مؤیدین حضرات کی طرف سے جس رد عمل‘برا فروختگی اور غصے کا اظہار ہوا اور ہمارے بعض مؤقر اخبارات نے ان خواتین وحضرات کے بیانات کو جس طرح پہلے صفحات پر جلی سرخیوں اور چوکھٹوں میں شائع کیا ہے اس سے ہمارے معاشرے کے رُخ کا ایک واضح پہلو ہمارے سامنے آ گیا ہے‘جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارا ماحول‘ہماری معاشرت اور ہمارا معاشرہ کس رنگ اور کس نہج پر جا رہا ہے اور کیا رجحانات اور میلانات ہمارے تعلیم یافتہ‘صاحب ثروت اور صاحب اقتدار طبقے کے اکثر حضرات وخواتین میں راسخ ہو چکے اور رچ بس چکے ہیں. پھر یہ بھی دیکھئے کہ ہمارے ملک کی انتظامی مشینری نے بحیثیت مجموعی ان رجحانات ومیلانات کا کس طرح ساتھ دیا ہے اور مارشل لاء کے ضابطوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی سے کس طرح صرفِ نظر کیا گیا ہے. اس لیے کہ مظاہرہ کرنے والی خواتین میں بعض اعلیٰ مناصب اور جاہ وحشمت رکھنے والے حضرات کی بیگمات اور خواتین شامل تھیں (۱. پھر اخبارات میں مضامین اور مراسلات کے ذریعے قرآن وسنت کی واضح تعلیمات بلکہ نصوصِ قطعیہ کے بالکل برخلاف جو من مانی اور مسخ شدہ تاویلات وتعبیرات سے جس طرح غض بصر کیا گیا ہے وہ بھی ملک کے اخبار بین طبقے کے سامنے ہے. (۲

ٍ یہ تمام باتیں یقینا ایسی ہیں کہ ہمارے لیے حالات کے رُخ کو پہچاننے میں ممد ہیں. اور اگر ہمیں واقعتا اس ملک میں اسلام ہی کو نافذ کرنا ہے تو ظاہر ہے کہ ہمارے لیے معاشرے کے میلانات اور رجحانات کے متعلق صحیح معلومات ضروری ہیں. میں سمجھتا ہوں کہ اپنے معاشرے کے بارے میں اگر ہمیں ایک حسن ظن ‘خوش گمانی اور اچھی توقع کی کیفیت پیدا ہو رہی تھی تو ہمیں اس ردِّ عمل کی روشنی میں (۱) مراد ہے وہ مظاہرہ جو اخباری اطلاعات کے مطابق ’’الہدیٰ‘‘ بند کرانے کے مطالبے کے لیے جناب گورنر سندھ کی اہلیہ یاسمین عباسی کی زیر قیادت کیا گیا. (مرتب)

(۲) اس ضمن میں قابل افسوس بات یہ ہے کہ پریس ٹرسٹ کے زیراہتمام کراچی سے خواتین کے لیے شائع ہونے والے ہفت روزہ میں ایسے مضامین اور مراسلات کثرت سے شائع ہوتے رہے ہیں جن میںڈاکٹرصاحب کو آڑ بنا کر اسلام کے صریح احکام کے ساتھ استہزاء اور تمسخر کا انداز اختیار کیاگیا ہے‘ جبکہ دنیا جانتی ہے کہ پریس ٹرسٹ حکومت کے تحت چلنے والا ادارہ ہے. (مرتب) 
اس پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس کر لینی چاہیے. اور اس بات کی تشخیص بھی ہو جانی چاہیے کہ ہمارے معاشرے کا اصل مرض کیا ہے!