آپ کو یاد ہو گا کہ میں نے چار پانچ تقاریر ’’قرآن کی سیاسی تعلیمات‘‘ کے موضوع پر کی تھیں. پھر ان کا خلاصہ ایک تقریر میں بیان کیا تھا جو ماہنامہ ’’میثاق‘‘ کے مارچ ۱۹۸۲ ء کے شمارے میں شائع ہو چکا ہے. اس کے بعد میں نے ’’اسلام کا معاشرتی نظام‘‘ کے موضوع پر بھی چار پانچ تقاریر کی ہیں. آج کی تقریر ان تمام تقاریر کا ایک خلاصہ ہو جائے گی جسے کتابی صورت میں بھی شائع کر دیا جائے گا تاکہ آپ حضرات کے سامنے اس مسئلے کے اہم گوشے تحریری شکل میں بھی آ جائیں. پھر جو لوگ ان باتوں سے اتفاق رکھتے ہوں اور اس کو معاشرے میں پھیلانا چاہتے ہوں اور خاص طور پر ہماری بہنوں تک اسلام کی تعلیمات پہنچانے کے خواہش مند ہوں تو وہ لوگ اس کتاب کو اس کام کا ذریعہ بنا سکیں‘ تاکہ ہماری بہنیں خود سوچیں کہ: اسلام کیا چاہتا ہے؟ شریعت ِالٰہی کا منشا کیا ہے؟ اور کن طور طریقوں کو اختیار کر کے اپنی دنیا اور آخرت سنواری جا سکتی ہیں؟

ہمارے معاشرے میں ایک طبقہ تو وہ ہے جو جان بوجھ کر اسلامی احکام اور تعلیمات سے رو گردانی کر رہا ہے یا جان بوجھ کر اسے مسخ کر رہا ہے. اس طبقے کے لیے تو ہماری گزارشات‘ تقریریں اور تحریریں لا حاصل ہیں. لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے‘ اگرچہ بڑی تلخ ہے‘ کہ ہماری بعض بہنوں اور بھائیوں کو فی الواقع مغالطہ اور انتشارِ ذہنی 
(confusion) لاحق ہے. جب ایک بات بڑے دعوے کے ساتھ اخبارات میں آئی ہے کہ ’’پورے قرآن مجید میں لفظ حجاب کہیں نہیں آیا ہے‘‘ یا یہ کہ ’’قرآن میں تو صاف صاف اس بات کا ذکر ہے کہ ’’جو مرد کمائے وہ اُس کے لیے اور جو عورت کمائے وہ اُس کے لیے‘‘ اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن نے عورت کو معاشی جدو جہد کی کھلی اجازت دی ہے!‘‘ یا یہ کہ ’’فلاں فلاں غزوات میں خواتین نے حصہ لیا تھا‘لہذا عورتوں کو مردوں کے شانہ بشانہ حصہ لینے کی نظیریں موجود ہیں‘‘ تو ایک مرتبہ انسان چونک جاتا ہے کہ جب ان باتوں کو اس زور وشور اور یقین واعتماد سے کہا گیا ہے اور قابل اعتماد اخبارات نے ان کو شائع کیا ہے تو یقینا بات ایسی ہی ہو گی. ان وجوہ سے فضا میں غبار کی سی کیفیت پیدا ہو گئی ہے. لہذا ایسے لوگوں کے لیے یقینا یہ باتیں عام کی جانی اُن کے حق میں مفید ہوں گی. ہوسکتا ہے کہ اس طرح ان کے مغالطے دور ہوں اور اصلاح کی صورت پیدا ہو. 

اب آئیے اصل مسئلہ کی طرف! قرآن اور اسلام کی روسے حقیقتاً اور واقعتا عورت کا مقام کیا ہے؟ بالخصوص یہ بات کہ عورت کی مرد کے ساتھ مساوات یا عدم مساوات کی ہمارے دین میں کیا کیفیت اور کیا صحیح صورت ہے؟