اس ضمن میں پہلی بات تو میں یہ عرض کروں گا کہ جہاں تک دینی اور اخلاقی سطح کا تعلق ہے تو قرآن اور اسلام اس اعتبار سے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں کرتا. نیکی اور بدی کے کمانے میں دونوں اَصناف کا علیحدہ علیحدہ ایک مکمل اخلاقی تشخص ہے‘مرد کا اپنا ہے اور عورت کا اپنا. مرد جو نیکی کماتا ہے تو اپنے لیے اور بدی کماتا ہے تو اپنے لیے‘اور عورت نے جو نیکی کمائی ہے تو اس کا اجر اس کے لیے ہے اور بدی کمائی ہے تو اس کا وبال بھی اسی کے اوپر ہوگا. عورت دینی اور اخلاقی اعتبار سے مرد کے تابع نہیں ہے. چنانچہ سورۃ التحریم میں واضح کیا گیا کہ بہترین مردوں کے گھروں میں بد ترین عورتیں رہیں. اس کے لیے حضرت نوح اور حضرت لوط علیہما السلام کی بیویوں کی مثال دی گئی. اگر عورت دینی اور اَخلاقی اعتبار سے مرد کے تابع ہوتی تو ان دو جلیل القدر رسولوں کی بیویاں عذابِ دُنیوی اور سزائے اُخروی کی مستحق قرار نہ پاتیں. لیکن ان رسولوں کی بیویاں ہونا اُن کے کچھ کام نہ آیا اور وہ جہنم کی سزا وار قرار پائیں. اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے : ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیۡنَ کَفَرُوا امۡرَاَتَ نُوۡحٍ وَّ امۡرَاَتَ لُوۡطٍ ؕ کَانَتَا تَحۡتَ عَبۡدَیۡنِ مِنۡ عِبَادِنَا صَالِحَیۡنِ فَخَانَتٰہُمَا فَلَمۡ یُغۡنِیَا عَنۡہُمَا مِنَ اللّٰہِ شَیۡئًا وَّ قِیۡلَ ادۡخُلَا النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِیۡنَ ﴿۱۰﴾ (التحریم)

’’اللہ کافروں کے معاملے میں نوح اور لوط (علیہما السلام) کی بیویوں کو بطور مثال پیش کرتا ہے. وہ ہمارے دو صالح بندوں کی زوجیت میں تھیں‘مگر انہوں نے اپنے ان شوہروں سے خیانت کی اور وہ اللہ کے مقابلے میں اُن کے کچھ بھی کام نہ آسکے‘ اور دونوں سے کہہ دیا گیا کہ جاؤ آگ میں جانے والوں کے ساتھ تم بھی چلی جاؤ !‘‘

چنانچہ معلوم ہوا کہ دینی اور اخلاقی لحاظ سے مرد اور عورت کا معاملہ بالکل جدا ہے. یہاں ایک ضروری بات پیش نظر رہے کہ یہاں خیانت کا لفظ بد کاری کے مفہوم میں ہرگز نہیں ہے. حِبرُ الاُمّۃ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا اس آیت کی تفسیر میں ابن جریرؒ نے یہ قول روایت کیا ہے کہ ’’کسی نبی کی بیوی کبھی بدکار نہیں رہی. ان دونوں عورتوں کی خیانت در اصل دین کے معاملے میں تھی. وہ اپنے شوہروں پر ایمان نہیں لائی تھیں. حضرت نوح علیہ السلام کی بیوی اپنی قوم کے جباروں کو ایمان لانے والوں کی خبریں پہنچایا کرتی تھی اور حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی اُن کے ہاں آنے والوں لوگوں کی اطلاع اپنی قوم کے بد کاروں کو دیا کرتی تھی.‘‘

اسی سورۃ التحریم میں دوسری مثال فرعون کی بیوی کی پیش کی گئی‘ جن کا نام روایات میں آسیہ آتا ہے. فرعون اللہ تعالیٰ کا بد ترین دشمن‘اللہ کا باغی‘انتہائی سرکش لیکن اُس کی بیویایسی صاحب ایمان‘خدا پرست اور خدا ترس خاتون کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ان کو بطورِ مثال پیش کرتے ہوئے ان کی دعا نقل فرما رہے ہیں:

وَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا امۡرَاَتَ فِرۡعَوۡنَ ۘ اِذۡ قَالَتۡ رَبِّ ابۡنِ لِیۡ عِنۡدَکَ بَیۡتًا فِی الۡجَنَّۃِ وَ نَجِّنِیۡ ۡ مِنۡ فِرۡعَوۡنَ وَ عَمَلِہٖ وَ نَجِّنِیۡ مِنَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿ۙ۱۱﴾ (التحریم) 
’’اور اللہ ایمان کے معاملے میں فرعون کی بیوی کی مثال پیش کرتا ہے. جبکہ اُس نے دعا کی: اے میرے ربّ! میرے لیے اپنے ہاں جنت میں ایک گھر بنا دے اور مجھے فرعون اور اس کے عمل سے بچا لے اور ظالم قوم سے مجھے نجات دے!‘‘

حضرت آسیہ کے لیے فرعون جیسے طاغی و سرکش کی بیوی ہونا بھی کسی نقصان کا موجب نہیں ہوا. ان دونوں مثالوں سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ عورت دینی اور اخلاقی حیثیت سے مرد کے تابع نہیں ہے‘بلکہ اس اعتبار سے اس کا ایک علیحدہ اور جداگانہ تشخص ہے.

اسی بات کو نبی اکرم  کی اس حدیث سے بھی سمجھئے کہ آنحضرت  نے اپنی عزیز ترین بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور آپ کی ذاتِ اقدس سے بہت محبت کرنے والی پھوپھی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو خطاب کر کے فرمایا:

یَا فَاطِمَۃُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ  اَنْقِذِیْ نَفْسَکِ مِنَ النَّارِ فَاِنِّیْ لَا اَمْلِکُ لَکِ مِنَ اللہِ شَیْئًا‘ یَا صَفِیَّۃُ عَمَّۃُ رَسُوْلِ اللہِ  اَنْقِذِیْ نَفْسَکِ مِنَ النَّارِ فَاِنِّیْ لَا اَمْلِکُ لَکِ مِنَ اللہِ شَیْئًا
’’اے فاطمہ! محمد  کی لخت جگر! اپنے آپ کو (جہنم کی) آگ سے بچانے کی فکر کرو‘اس لیے کہ میں اللہ کے ہاں تمہارے کچھ بھی کام نہیں آ سکوں گا. اور اے صفیہ! رسول اللہ  کی پھوپھی !اپنے آپ کو آگ سے بچانے کی فکر کرو‘کیونکہ میں اللہ کے ہاں تمہارے کچھ بھی کام نہیں آ سکوں گا.‘‘