وہ مساوات جس کو اسلام تسلیم کرتا ہے

سورۂ آل عمران کے آخری حصے میں فرمایا گیا ہے:

...اَنِّیۡ لَاۤ اُضِیۡعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنۡکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ اَوۡ اُنۡثٰی بَعۡضُکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡضٍ (آل عمران: ۱۹۵
’’… میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کے کسی بھی عمل کو ضائع کرنے والا نہیں ہوں‘خواہ وہ عمل کرنے والا مرد ہو خواہ عورت. تم سب ایک دوسرے ہی میں سے ہو.‘‘

مرد وعورت تمدن کی گاڑی کے دو پہیے ہیں. ان کی جسمانی ساخت اور نفسیاتی کیفیات مختلف ہیں. یہ اختلافات تمدن کی ضرورت کے تحت رکھے گئے ہیں. انسان ہونے کے ناطے سے وہ ایک دوسرے کی جنس ہیں‘لیکن دینی اور اخلاقی اعتبارات سے دونوں کا جداگانہ اور مستقل تشخص ہے اور وہ اپنی اپنی شخصیت کے ذمہ دار ہیں یہی بات سورۃ الاحزاب میں بڑے ہی پیارے انداز میں آئی ہے فرمایا گیا:

اِنَّ الۡمُسۡلِمِیۡنَ وَ الۡمُسۡلِمٰتِ وَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ وَ الۡقٰنِتِیۡنَ وَ الۡقٰنِتٰتِ وَ الصّٰدِقِیۡنَ وَ الصّٰدِقٰتِ وَ الصّٰبِرِیۡنَ وَ الصّٰبِرٰتِ وَ الۡخٰشِعِیۡنَ وَ الۡخٰشِعٰتِ وَ الۡمُتَصَدِّقِیۡنَ وَ الۡمُتَصَدِّقٰتِ وَ الصَّآئِمِیۡنَ وَ الصّٰٓئِمٰتِ وَ الۡحٰفِظِیۡنَ فُرُوۡجَہُمۡ وَ الۡحٰفِظٰتِ وَ الذّٰکِرِیۡنَ اللّٰہَ کَثِیۡرًا وَّ الذّٰکِرٰتِ ۙ اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُمۡ مَّغۡفِرَۃً وَّ اَجۡرًا عَظِیۡمًا ﴿۳۵﴾ (الاحزاب) 

’’بالیقین جو مرد اور جو عورتیں مسلم ہیں ‘ایمان والے اور ایمان والیاں ہیں‘ مطیع فرمان ہیں‘ راست گو اور راست باز ہیں‘ صبر کرنے والے اور صبر کرنے والیاں ہیں‘ اللہ کے آگے جھکنے والے اور جھکنے والیاں ہیں‘ صدقہ دینے والے اور صدقہ دینے والیاں ہیں‘ روزہ رکھنے والے اور روزہ رکھنے والیاں ہیں‘ عصمت مآب ہیں‘ اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے اور یاد کرنے والیاں ہیں‘ اللہ نے ان (مردوں اور عورتوں) کے لیے مغفرت اور بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے.‘‘اب ذرا غور کیجیے کہ دینی واخلاقی مساوات کو یہاں کس قدر حسین اور جامع اسلوب سے نمایاں کیا گیا ہے. جتنے اور جو بھی اعلیٰ اوصاف مسلمان مرد میں ہو سکتے ہیں اتنے اور وہی اعلیٰ اوصاف مسلمان خاتون میں بھی ہو سکتے ہیں. اس لحاظ سے ان میں کوئی فرق وتفاوت نہیں ہے. دینی‘ اَخلاقی اور روحانی ترفع اور اعلیٰ مقامات ومدارج تک پہنچنے کے جتنے بھی مواقع مردوں کے لیے ہو سکتے ہیں اتنے ہی خواتین کے لیے بھی موجود ہیں. ان کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں ہے کہ وہ ان مقاماتِ عالیہ تک نہ پہنچ سکتی ہوں یا ان اعتبارات سے وہ کم تر درجے کی حامل ہوں. پس یہ آیت کریمہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ دینی‘ اَخلاقی اور روحانی لحاظ سے عورت کا تشخص بھی کامل ہے اور مرد کے ساتھ وہ مکمل مساوات رکھتی ہے. اسی طرح سورۃ النساء کی آیت ۳۲ میں فرمایا گیا:

وَ لَا تَتَمَنَّوۡا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعۡضَکُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ ؕ لِلرِّجَالِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا اکۡتَسَبُوۡا ؕ وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا اکۡتَسَبۡنَ ؕ وَ سۡئَلُوا اللّٰہَ مِنۡ فَضۡلِہٖ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا ﴿۳۲﴾ (النساء) 

’’اور اللہ نے مرد وعورت میں سے ایک دوسرے کو جو فضیلت دی ہے اس کے لیے ارمان نہ کرو. مرد حصہ پائیں گے اس میں سے جو وہ کمائی کریں گے اور عورتیں حصہ پائیں گی اس میں سے جو وہ کمائی کریں گی. اللہ سے اُس کی بخشش میں سے حصہ مانگو! بالیقین اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے.‘‘

یہاں بھی در حقیقت دینی‘ اَخلاقی اور روحانی سطح کے موضوع کو زیر بحث لایا گیا ہے. اس آیت میں ایک طرف تو یہ بات واضح ہو گئی کہ قدرت کی طرف سے مرد اور عورت کو جو خصوصیات ودیعت کی گئی ہیں اُن میں فضیلت کا پہلو کسی ایک ہی کے ساتھ مخصوص نہیں‘ بلکہ اس لحاظ سے دونوں برابر کے حصہ دار ہیں. لیکن فضیلت فضیلت میں فرق ہے. لہذا یہ تمنا نہ کرو کہ جو فضیلتیں فطرت کے مطابق دی گئی ہیں ان میں مساوات اور یکسانیت ہو. ایک دوسرے پر رشک کرنے اور ان کی ریس کرنے کے بجائے ہر ایک اپنی نعمتوں کے حصے پر قانع اور شکر گزار رہے اور ان کا حق ادا کرنے کی کوشش کرے. دوسری طرف یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ نیکی اور بدی کی کمائی کرنے میں مرد اور عورت بالکلیہ آزاد ہیں. ہر ایک کو اپنی اپنی کمائی میں سے حصہ ملے گا. مرد کی کمائی ہوئی نیکی یا بدی میں عورت حصہ دار نہیں ہو گی اور اسی طرح عورت کی کمائی ہوئی نیکی یا بدی سے مرد کو کوئی حصہ نہیں ملے گا. گویا دینی‘ اَخلاقی اور روحانی اعتبار سے مرد وعورت کا مکمل جداگانہ تشخص ہے اور اس لحاظ سے دونوں میں کامل مساوات ہے. دونوں اس میدان میں اپنی اپنی محنت اور لگن سے نیکیاں کما سکتے ہیں‘جس کے اجر میں کمائی کرنے والے ہی کا حصہ ہو گا. جو کوئی ہوائے نفس سے مغلوب ہو کر اور شیطان کے فریب میں آ کر بدی کمائے گا تو اس کا وبال اس کمائی کرنے والے کے سر پر ہی ہو گا. 

اس آیت پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے‘ اس لیے کہ ہماری کچھ بہنیں اس آیت میں لفظ ’’کسب‘‘ سے بڑے مغالطے میں مبتلا ہو گئی ہیں اور آج کے دور کی ’’جدید مفسراتِ قرآن‘‘ اس لفظ ’’کسب‘‘ سے ہماری سادہ لوح بہنوں کو مغالطے میں مبتلا کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں. یہ جدید مفسرات بڑے دھڑلے سے کہہ رہی ہیں کہ اس آیت میں کسب سے مراد یہ ہے کہ معاش کے لیے جس طرح مرد بھاگ دوڑ کر سکتا ہے‘ کاروبار یا ملازمت کر سکتا ہے‘ اسی طرح عورت کو بھی معاشی جدوجہد میں حصہ لینے کی پوری آزادی اور کھلی چھوٹ ہے. میں اس مسئلہ پر آگے قدرے تفصیل سے گفتگو کروں گا‘ لیکن یہاں یہ جان لیجیے کہ قرآن مجید میں لفظ ’’کسب‘‘ اکثر وبیشتر نیکی یا بدی کمانے کے معنی اور مفہوم میں آیا ہے. میرے مطالعے کے مطابق لفظ ’’کسب‘‘ دُنیوی کمائی کے لیے صرف سورۃ البقرۃ کی آیت ۲۶۷ میں استعمال ہوا ہے‘ جہاں انفاق فی سبیل اللہ پر زور دیا گیا ہے اور اس کی تاکید کی گئی ہے. فرمایا گیا ہے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡفِقُوۡا مِنۡ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبۡتُمۡ (البقرۃ: ۲۶۷)
’’اے اہل ایمان! جو مال تم نے کمائے ہیں ان میں سے پاکیزہ اور بہتر حصہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو.‘‘

دُنیوی رزق کو تو اللہ تعالیٰ فضل قرار دیتا ہے. انسان جو کچھ دنیوی رزق اور مال حاصل کرتا ہے اس کے لیے قرآن کی اصطلاح ’’فضل‘‘ ہے کسب یعنی کمائی نہیں ہے. قرآن مجید کی تعلیم یہ ہے کہ بلا شبہ محنت اور مشقت تم کرتے ہو‘ لیکن یہ نہ سمجھنا کہ مجھے جو کچھ ملا ہے وہ میری محنت ومشقت کا حاصل اور ثمرہ ہے‘ بلکہ یہی سمجھنا کہ یہ اللہ کا فضل ہے. ہو سکتا ہے کہ تم محنت کیے جاؤ اور ہاتھ کچھ بھی نہ آئے‘مشقت کیے جاؤ اور نتیجہ صفر نکلے ہمارا روز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ انسان سونے میں ہاتھ ڈالتا ہے اور وہ راکھ بن جاتا ہے‘حالانکہ ذہانت وفطانت بھی ہے اور محنت واحتیاط بھی. اس کے برعکس ایک وہ شخص ہے جو مٹی میں ہاتھ ڈالتا ہے تو وہ سونا بن جاتی ہے. پس معلوم ہوا کہ رزق کی بہم‘رسانی‘اس کی کشادگی اور تنگی من جانب اللہ تعالیٰ ہوتی ہے. یہ اصل میں اس کا فضل ہے باقی رہا لفظ ’’کسب‘‘ تو وہ نیکی کمانے اور بدی کمانے دونوں معنوں میں آتا ہے. لہذا اس آیت ۳۲ میں بھی دینی اور اخلاقی اعتبار سے بات کہی گئی ہے کہ مردوں کے لیے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے (نیکی یا بدی کی) کمائی کی اور عورتوں کے لیے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے (نیکی یا بدی کی) کمائی کی. مردوں کی کمائی ان کے لیے ہے‘ اس میں عورتوں کا کوئی حصہ نہیں اور اسی طرح عورتوں کی کمائی ان کے لیے ہے‘ وہ مردوں کے حساب میں درج نہیں ہو گی. 

یہاں خاص طور پر یہ بات نوٹ کیجیے کہ: ’’ نَصِیۡبٌ مِّمَّا اکۡتَسَبُوۡا‘‘ اور ’’نَصِیۡبٌ مِّمَّا اکۡتَسَبۡنََ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں. اگر یہاں لفظ ’’کسب‘‘ دنیوی کمائی کے لیے استعمال ہوتا تو ’’نصیب‘‘ (حصہ) نہ کہا جاتا. دنیا میں تو کمائی پوری ملتی ہے. مثلاً اگر کسی کاریگر یا مزدور نے تیس روپے روزانہ اُجرت طے کر کے کام کیا ہے تو اسے پورے تیس روپے ملیں گے. نَصِیْبٌ مِّنْہُ یعنی اس کا کوئی جزو یا حصہ نہیں ملے گا. اس آیت میں لفظ ’’نَصِیْبٌ‘‘ اس مفہوم کی طرف رہنمائی کر رہا ہے کہ انسان دنیا میں جو نیکی یا بدی کماتا ہے‘ ضروری نہیں ہے کہ اس کے مطابق اور اسی مقدار میں بدلہ بھی مل جائے. ہوسکتا ہے کہ نیکی کمانے میں کہیں حسن نیت میں کوئی کمی ہو‘ لہذا اس کا اجر کچھ کم ہو جائے. ہو سکتا ہے کہ اِخلاص پورا ہو تو اسی مناسبت سے اسی نیکی پر اسے دوسروں کے مقابلے میں زیادہ اجر مل جائے. یہ بھی ہو گا کہ کسی کی نیکی کے اثرات معاشرے میں پھیلیں اور کسی کی اسی نیکی کے اثرات اُس کی ذات تک محدود رہیں تو اسی اعتبار سے اجر و ثواب میں تفاوت واقع ہو جائے گا. ان ہی اصولوں کا بدی کمانے کے معاملے پر بھی انطباق کر لیجیے.