آگے چلیے! یہ بات اپنی جگہ بالکل صحیح ہے کہ تاریخ انسانی میں اسلام نے پہلی مرتبہ عورت کو مستقل قانونی تشخص عطا کیا ہے ‘ legal status دیا ہے. وہ اپنی ذاتی ملکیت رکھ سکتی ہے. اس کو حق ملکیت بھی حاصل ہے اور اس پر تصرف کا اختیار بھی ! یہ قانونی تشخص اسلام نے عورت کو اس درجے دیا ہے کہ میرے علم میں نہیں ہے کہ کسی اور مذہب نے عورت کا یہ تشخص تسلیم کیا ہو اور اسے عطا کیا ہو. روحانی اعتبار سے تو تقریباً تمام مذاہب میں سمجھا یہی گیا ہے کہ ’’عورت‘‘ سر تا پا شر ہی شر ہے‘یہ گندگی کی پوٹلی ہے‘ یہ بِس کی گانٹھ ہے‘ یہ برائی اور بدی کا سرچشمہ اور منبع ہے. انگریزی لفظEvil (جس کے معنی بدی ‘ برائی‘ گنہگار اور شیطان وابلیس لیے جاتے ہیں) کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ لفظ Eve سے بنا ہے جو ’’حوا‘‘ کے نام کا انگریزی ترجمہ ہے. عیسائیت میں عورت کے متعلق یہی تصورات ہیں جن کامیں نے ابھی ذکر کیا ہے‘ جبکہ اسلام کا تصور یہ نہیں ہے. اسلام نے عورت کو بھر پور دینی واَخلاقی تشخص کے ساتھ بھر پور قانونی تشخص بھی عطا کیا ہے. عورت کو پستی کے مقام سے اٹھا کر اسلام نے کس اعلیٰ وارفع مقام پر فائز کیا ہے‘ اس پر میں آگے قدرے تفصیل سے گفتگو کروں گا. یہاں میں صرف ایک حدیث آپ کو سنانا چاہتا ہوں‘جس سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ دیگر مذاہب میں عورت کے متعلق جو غلط تصورات ہیں اُن کا اسلام میں کس طرح اِبطال کیا گیا ہے. نبی اکرم  نے فرمایا:

حُبِّبَ اِلَیَّ مِنَ الدُّنْیَا اَلنِّسَاءُ وَالطِّیْبُ وَجُعِلَ قُرَّۃُ عَیْنِیْ فِی الصَّلاۃِ (۱
’’دنیا کی چیزوں میں مجھے سب سے زیادہ محبوب عورت اور خوشبو ہے‘اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے.‘‘