قانونی تشخص میں مساوات نہیں ہے

جو لوگ بھی اسلام کو واقعی ایک مکمل نظام حیات اور زندگی کے ہر معاملے میں کتاب وسنت ہی کو اپنا ہادی اور امام تسلیم کرتے ہیں اور اسی کی رہنمائی کی پیروی کو اپنے لیے دنیا و آخرت میں موجب فوز و فلاح اور سعادت سمجھتے ہیں وہ نوٹ کر لیں کہ اسلام نے عورت کو ایک مکمل قانونی تشخص ضرور عطا کیا ہے‘لیکن قانونی سطح پر مرد و عورت کو مساوی اور برابر نہیں رکھا گیا ہے. مرد و عورت دینی اور اَخلاقی سطح پر بالکل برابر ہیں‘ان کے مابین کامل مساوات ہے‘لیکن قانونی طور پر یہ مساوات قائم نہیں رہتی. اس ضمن میں قرآن مجید سے دو باتیں تو ایسی نمایاں طور پر ثابت ہیں کہ جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا.

(۱) اسلام نے عورتوں (بیٹیوں‘بیویوں اور ماؤ ں) کا وراثت میں حق رکھا ہے اور ان کو حصہ دیا ہے‘ لیکن برابر نہیں. بیٹے کے مقابلے میں بیٹی کا حصہ آدھا ہے. اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 

یُوۡصِیۡکُمُ اللّٰہُ فِیۡۤ اَوۡلَادِکُمۡ ٭ لِلذَّکَرِ مِثۡلُ حَظِّ الۡاُنۡثَیَیۡنِ (النساء: ۱۱)

’’اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں یہ ہدایت کرتا ہے کہ مرد کو دو عورتوں کے برابر حصہ دو.‘‘ اسی طرح باپ کے مقابلے میں ماں کا حصہ آدھا ہے. کون شخص ہے جو مسلمان ہونے کا مدعی ہو‘ قرآن پر ایمان رکھنے کا دعوے دار ہو اور کسی درجے میں قرآن سے واقف ہو‘ اور یہ نہ جانتا ہو کہ قانونِ وراثت قرآن مجید میں کس قدر تفصیل سے آیا ہے! پھر یہ کہ عورت کو (بحیثیت بیٹی‘ بیوی‘ ماں‘ بہن‘ خالہ‘ پھوپھی) جو حق وراثت دیا گیا ہے‘ وہ مرد کے مقابلے میں آدھا ہے. 

اس کا سبب بھی بآسانی سمجھ میں آ جاتا ہے. وہ یہ کہ اسلام معاشی کفالت کا تمام بوجھ مرد کے کاندھوں پر ڈالتا ہے. اور اپنی جسمانی ساخت‘ توانائیوں اور صلاحیتوں کے لحاظ سے وہی اس بوجھ کو اٹھانے کے لائق اور قابل بھی ہے. لہذا وراثت میں عورت کے مقابلے میں اس کا دوہرا حصہ رکھا گیا ہے. بیٹی کو جو کچھ ملے گا وہ اُسے لے کر بیوی کی حیثیت سے شوہر کے گھر چلی جائے گی اور یہ اُس کی ذاتی ملکیت ہو گی. اگر پہلے ہی سے شادی شدہ ہے تو اُس کو یہ ورثہ ذاتی طور پر مل جائے گا. اس کی اپنی کفالت اپنے شوہر کے ذمہ ہے. لہذا باپ یا ماں کی طرف سے ملنے والا ورثہ اس کی ذاتی ملکیت (personal property) کی حیثیت سے رہے گا. اُس کو شوہر یا اپنے بچوں کی کفالت نہیں کرنی. اس کے برعکس بیٹے کو اپنے خاندان کی کفالت کرنی ہے. چنانچہ یہ بالکل منطقی اور عقلی طور پر مربوط اور متعلق چیزیں ہیں. ان میں کوئی استبعاد نہیں ہے کہ بیٹی کو بیٹے کے مقابلے میں حصہ نصف دیا جائے. 

(۲) آپ کو معلوم ہے کہ قانون میں ’’شہادت‘‘ بڑی اہمیت رکھنے والی چیز ہے. شہادت کے بارے میں قرآن سے معمولی شغف رکھنے والا کون شخص ہو گا جو یہ نہیں جانتا ہو گا کہ قرآن کا قانون یہ ہے کہ شہادت کا نصاب دو مرد ہیں یا ایک مرد اور دو عورتیں ہیں. یعنی ایک مرد کے ساتھ شہادت کے لیے دو عورتیں ہونی ضروری ہیں. ان دو عورتوں کی شہادت ایک مرد کی شہادت کے مساوی شمار کی جائے گی. یہ قانون قرآن مجید میں صراحتاً مذکور ہے. سورۃ البقرۃ کی آیت ۲۸۲ میں‘جو بڑی طویل آیت ہے‘بہت سے قوانین بیان ہوئے ہیں جن میں قانونِ شہادت بھی شامل ہے‘جس کے ضمن میں فرمایا گیا: 

وَ اسۡتَشۡہِدُوۡا شَہِیۡدَیۡنِ مِنۡ رِّجَالِکُمۡ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ یَکُوۡنَا رَجُلَیۡنِ فَرَجُلٌ وَّ امۡرَاَتٰنِ مِمَّنۡ تَرۡضَوۡنَ مِنَ الشُّہَدَآءِ اَنۡ تَضِلَّ اِحۡدٰىہُمَا فَتُذَکِّرَ اِحۡدٰىہُمَا الۡاُخۡرٰی ؕ (البقرۃ: ۲۸۲

’’اور گواہ بناؤ اپنے مردوں میں سے دو‘اگر دو مرد موجود نہ ہوں تو پھر ایک مرد اور دو عورتیں جن کو تم گواہوں میں سے پسند کرو‘تاکہ اگر ایک بھول جائے تو دوسری یاد دلا سکے.‘‘
ایک مرد کے مقابلے میں دو عورتوں کو بطور گواہ مقرر کرنے کی حکمت بھی بیان فرما دی کہ اگر ایک عورت بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے. اب آپ سوچیے کہ نسیان مرد کو بھی لاحق ہو سکتا ہے‘مرد بھی بھول سکتا ہے اور عورت بھی‘لیکن قرآن حکیم کا یہ اسلوب اور انداز بتا رہا ہے کہ نسیان کا زیادہ امکان عورت کے بارے میں ہے. اس کی وجہ کیا ہے؟ مرد وعورت کی تخلیق اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے. ان کی فطرت کی ساخت بھی اُسی کی بنائی ہوئی ہے اور وہ ان کی خلقت سے خوب واقف ہے. 

اَلَا یَعۡلَمُ مَنۡ خَلَقَ ؕ وَ ہُوَ اللَّطِیۡفُ الۡخَبِیۡرُ ﴿٪۱۴﴾ (المُلک) 

’’کیا وہی نہیں جانے گا جس نے پیدا کیا ہے؟ در آں حالیکہ وہ باریک بین اور باخبر ہے.‘‘
پس وہی اللہ مرد وعورت کی فطرت کا فاطر ہے. وہ عالم الغیب والشہادۃ ہے. لہذا اس سے بڑھ کر جاننے والا تو کوئی ہو ہی نہیں سکتا. 

مزید یہ کہ عورت کے مزاج میں جذبات کا عنصر غالب رکھا گیا ہے اور جذبات ذہول ونسیان کا زیادہ سبب بنتے ہیں . جذبات کا عنصر مرد میں بھی ہے لیکن اس کی جو نفسیاتی ساخت ہے اس میں یہ عنصر عورت کے مقابلے میں اس پر زیادہ غالب اور قابو یافتہ نہیں ہوتا. اس موقع پر یہ بھی ذہن میں رکھیے کہ ؎

خدا پنج انگشت یکساں نہ کرد !!
ٍنہ ہر زن زن است و نہ ہر مرد مرد 

باقاعدہ جائزہ لینے بیٹھیں تو ہو سکتا ہے کہ آپ کو بہت سے مرد عورتوں سے بھی زیادہ جذباتی نظر آئیں اور بہت سی عورتیں مردوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ سرد مزاج (cool minded) مل جائیں‘ لیکن یہ استثناء (exception) ہو گا. جب آپ اوسط (average) کو سامنے رکھیں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ مرد زیادہ متحمل مزاج ہے اور عورت میں جذبات کا عنصر غالب ہے. یہ بھی در حقیقت ان فرائض منصبی سے بہت زیادہ مناسبت رکھنے والی چیز ہے جو عورت کے ذمہ کیے گئے ہیں. لہذا اس اعتبار سے نسیان کا امکان و احتمال مرد کے بہ نسبت عورت میں زیادہ ہے. چنانچہ اسی لیے شہادت کا نصاب دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں ہمارے دین نے مقرر کیا ہے. گویا اسلامی قانونِ شہادت میں مرد کی گواہی کے مقابلے میں عورت کی گواہی کو آدھا رکھا گیا ہے. یہ گواہی ’’پوری ایک‘‘ اس وقت شمار ہو گی جب دوسری عورت بھی یہی گواہی دینے کے لیے موجود ہو . عورت کو اسلام نے ایک قانونی تشخص دیا ہے. یہ اسلام کا عورت پر بہت بڑا احسان ہے. لیکن یہ معاملہ کہ وہ قانونی تشخص میں مرد کے مساوی ہو تو یہ بات درست نہیں ہے‘ بلکہ اس میں فرق وتفاوت ہے‘ جیسا کہ میں نے قرآن حکیم کے دو اَحکام کی مثالوں سے آپ کے سامنے واضح کیا ہے.