اب معاشرتی و اجتماعی دائرے کے اندر مرد وزن کی بلا قید اور کامل مساوات کے قائلین کو سوچنا چاہیے کہ اس طرح تو ان کے نظریۂ مساوات اور اسلامی قوانین میں قدم قدم پر تصادم ہو گا. آپ اسلام کی کچھ پابندیوں کو فقہاء یا ملاؤں کا اسلام کہہ کر اس سے پہلو تہی کرنا چاہتے ہیں اور عورتوں کو مردوں کے مساوی حقوق دینے کا نعرہ بلند کرتے ہیں تو ان قوانین صریحہ اور نصوصِ قطعیہ کے بارے میں آپ کیا رویہ اختیار کریں گے جن سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ وراثت اور قانونِ شہادت میں عورت کا تشخص مرد کے مقابلے میں آدھا کیا گیا ہے؟ ایک مردِ معقول کو دو راستوں میں سے ایک راستہ اختیار کرنا ہو گا. پہلا راستہ یہ ہے کہ اس غلط نظریے سے تائب ہو کر سیدھے سیدھے خود کو اللہ اور اس کے رسول  کی اطاعت میں دے دے‘ جیسا کہ قرآن ہر مؤمن مرد اور مؤمن عورت سے مطالبہ کرتا ہے: 

وَ مَا کَانَ لِمُؤۡمِنٍ وَّ لَا مُؤۡمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗۤ اَمۡرًا اَنۡ یَّکُوۡنَ لَہُمُ الۡخِیَرَۃُ مِنۡ اَمۡرِہِمۡ ؕ وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیۡنًا ﴿ؕ۳۶﴾ (الاحزاب) 

’’کسی مؤمن مرد اور کسی مؤمن عورت کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ جب اللہ اور اُس کا رسول ؐ کسی معاملے میں کوئی فیصلہ دے دیں تو پھر اسے اس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے. اور جو کوئی اللہ اور اُس کے رسولؐ کی نا فرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا.‘‘

مسلم (جس سے لفظ مسلمان بنا ہے اور ہمارے ہاں رائج ہے) کے معنی ہی اللہ اور اُس کے رسول کے آگے اپنے آزادانہ اختیار سے دستبرداری کے ہیں. امام الہند شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے قرآن مجید کے فارسی ترجمے میں ’’اسلام‘‘ کا ترجمہ ’’گردن نہادن‘‘ کیا ہے. اب کسی شخص کا ایک طرف یہ اقرار کہ وہ مسلمان ہے جبکہ دوسری طرف اس کا یہ اصرار کہ مرد وعورت کامل اور بلا قید مساوات کے حامل ہیں‘ باہم متناقض ہیں. کوئی ذی عقل انسان ان دو متضاد رویوں کو جمع کرنے کا تصور نہیں کر سکتا. مسلمان رہنا ہو تو لازماً اللہ اور رسول کے اَحکام کے آگے سر تسلیم خم کرنا ہو گا.

دوسرا راستہ یہ ہے کہ جس شخص کے لیے شریعت ِالٰہی کی پابندیاں قابل قبول نہیں ہیں تو وہ اسلام کے قلادے کو اپنی گردن سے اتارے اور پھر جس وادی میں چاہے بھٹکتا پھرے . دنیا کے چلن کی پیروی اور زمانے کا ساتھ دینے کا رویہ اللہ اور رسول کی اطاعت ہرگز نہیں ہے‘بلکہ یہ اپنے ہوائے نفس کی بندگی ہے. اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے . مردانگی یہ نہیں ہے کہ ؏ ’’زمانہ با تو نہ سازد تو با زمانہ بساز!‘‘ بلکہ اصل جواں مردی تو یہ ہے کہ ؏ ’’زمانہ با تو نہ سازد تو با زمانہ ستیز!‘‘