عورت بحیثیت ماں

اب آئیے عورت کی جو مختلف حیثیتیں ہیں‘اس کے اعتبار سے دیکھیں کہ اسلامی تعلیمات کیا ہیں! عورت کی ایک حیثیت تو یہ ہے کہ وہ ماں ہے. اس معاملے میں تو واقعہ یہ ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک‘ان کے ادب واحترام اور معروف میں ان کی فرمانبرداری کے جو تاکیدی اَحکام قرآن وسنت نے دیے ہیں‘ اس کی کوئی نظیر آپ کو کسی بھی دوسرے مذہب یا نظامِ فکر میں نہیں ملے گی. یہ احکام آپ کو سورۃ البقرۃ‘ سورۃ النساء‘ سورۃ الانعام‘ سورۂ بنی اسرائیل‘ سورۃ العنکبوت‘ سورۂ لقمان اور سورۃ الاحقاف میں مختلف اسالیب سے ملیں گے. متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ کے حق کے فوراً بعد والدین کے حق کا ذکر ہوتا ہے. مثلاً سورۃ البقرۃ میں فرمایا: 

وَ اِذۡ اَخَذۡنَا مِیۡثَاقَ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ لَا تَعۡبُدُوۡنَ اِلَّا اللّٰہَ ۟ وَ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا (البقرۃ: ۸۳
’’اور یاد کرو‘ بنی اسرائیل سے جب ہم نے پختہ عہد لیا تھا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنا…‘‘

سورۃ الانعام میں فرمایا:

قُلۡ تَعَالَوۡا اَتۡلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمۡ عَلَیۡکُمۡ اَلَّا تُشۡرِکُوۡا بِہٖ شَیۡئًا وَّ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا (الانعام: ۱۵۱
’’(اے نبی !) ان سے کہہ دیجیے کہ آؤ میں تمہیں سناؤں کہ تمہارے ربّ نے تم پر کیا پابندیاں عائد کی ہیں! یہ کہ اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو.‘‘

سورۂ بنی اسرائیل میں فرمایا:

وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ وَ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا ؕ (بنی اسراء یل: ۲۳
’’اور تیرے ربّ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو مگر صرف اُسی کی‘ اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو.‘‘

سورۂ لقمان میں شرک کی مذمت کے بعد فرمایا: 

وَ وَصَّیۡنَا الۡاِنۡسَانَ بِوَالِدَیۡہِ ۚ حَمَلَتۡہُ اُمُّہٗ وَہۡنًا عَلٰی وَہۡنٍ وَّ فِصٰلُہٗ فِیۡ عَامَیۡنِ اَنِ اشۡکُرۡ لِیۡ وَ لِوَالِدَیۡکَ ؕ (لقمان: ۱۴)
’’اور حقیقت یہ ہے کہ خود ہم نے انسان کو اپنے والدین کے حق کو پہچاننے کی تاکید کی ہے. اُس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھاتے ہوئے اور کمزوری پر کمزوری جھیل کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کے دودھ چھوٹنے میں لگے. (اسی لیے ہم نے اس کو نصیحت کی ) کہ میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا.‘‘

سورۂ لقمان کی اس آیت کے اسلوب سے واضح ہوتا ہے کہ ماں کا حق باپ کے حق پر فائق ہے. لہذا حدیث نے اس فوقیت کو واضح کر دیا کہ ماں کے حسن سلوک کا یہ حق باپ کے مقابلے میں کم سے کم تین گنا ہے اور اللہ اور رسول کے بعد سب سے زیادہ احترام و تکریم کی مستحق ماں ہے. چونکہ آنحضور  کا یہ فرضِ منصبی ہے کہ قرآن مجید کے مضمرات کی تبیین فرمائیں‘ان کو کھولیں اور واضح کریں:

وَ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الذِّکۡرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیۡہِمۡ (النحل:۴۴
’’(اے نبی !) اور اب یہ ذکر (قرآن) آپ پر نازل کیا گیا ہے تاکہ آپ اس کی تشریح وتوضیح کرتے جائیں جو لوگوں کے لیے اتاری گئی ہے …‘‘

چنانچہ صحیح بخاری کی حدیث ہے:

سَئَلَ رَجُلٌ: یَا رَسُوْلَ اللہِ مَنْ اَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ صَحَابَتِیْ؟ قَالَ: اُمُّکَ قَالَ ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: ثُمَّ اُّمُکَ قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: (ثُمَّ اُمُّکَ قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: ثُمَّ اَبُوْکَ (۱
’’ایک شخص نے پوچھا: یا رسول اللہ ! لوگوں میں میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ فرمایا: ’’تمہاری ماں!‘‘ اُس نے پوچھا: پھر کون؟ فرمایا: ’’پھر تمہاری ماں!‘‘! اس نے پوچھا: پھر کون؟ فرمایا: ’’پھر تمہاری ماں!‘‘ اُس نے پوچھا: پھر کون؟ فرمایا: ’’پھر تمہارا باپ!‘‘ 

یہ حدیث تو بڑی مشہور اور عام ہے کہ رسول اللہ  نے فرمایا: 

اَلْجَنَّۃُ تَحْتَ اَقْدَامِ اُمَّھَاتِکُمْ 
’’جنت تمہاری ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے.‘‘

بخاری ومسلم میں حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  نے فرمایا:

عَنِ الْمُغِیْرَۃَبْنِ شُعْبَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ: اِنَّ اللہَ حَرَّمَ عَلَیْکُمْ عُقُوْقَ الْاُمَّھَاتِ (۲)
’’بلا شبہ اللہ نے تم پر اپنی ماؤں کی نا فرمانی اور حق تلفی حرام کرد ی ہے. ‘‘

واقعہ یہ ہے کہ دورانِ حمل اور وضع حمل میں جو خاص تکلیف اور خاص مشقت عورت اٹھاتی ہے اور جس درد وکرب سے اسے سابقہ پیش آتا ہے اس کا تصور بھی مردوں کے لیے ممکن نہیں ہے. یہیں یہ بات بھی سمجھ لیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے (۱) صحیح البخاری، کتاب الادب، باب من احق الناس بحسن الصحبۃ.

(۲) صحیح البخاری، کتاب فی الاستقراض واداء الدیون … باب ما ینھی عن اضاعۃ المال، وکتاب الادب، باب عقوق الوالدین من الکبائر. صحیح مسلم، کتاب الاقضیۃ، باب النھی عن کثرۃ المسائل من غیر حاجۃ. 

عورت کی جسمانی اور جذباتی ونفسیاتی ساخت میں درد وتکلیف کو جھیلنے اور برداشت کرنے کی صلاحیت و قوت مرد کے مقابلے میں بہت زیادہ رکھی ہے. اس معاملے میں عورت مرد پر فضیلت رکھتی ہے. جذبات کی یہ شدت ہی مامتا کا روپ دھارتی ہے. پھر یہ کہ عورت ماں کے علاوہ بیوی‘ بیٹی اور بہن کی حیثیت سے بھی ٹوٹ کر محبت کرتی ہے. بچے کی رضاعت‘ اس کی نگہداشت اور تربیت میں ماں کو اہم کردار ادا کرنا پڑتا ہے. لہذا ان تمام اعتبارات سے احترام وتکریم‘ فرمانبرداری اور حسن سلوک کے معاملے میں ماں کے حقوق باپ کے مقابلے میں تین درجے مقدم رکھے گئے ہیں.

اس موقع پر میں ایک اہم بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ہمیں معروضی طور پر 
(objectively) سمجھنا چاہیے کہ اسلام کا منشا کیا ہے؟ شریعت و قانونِ اسلام کا رجحان ومیلان کیا ہے؟ یہ بات جان لیجیے کہ اسلامی قانون کے اعتبار سے اولاد باپ کی ہے‘ ماں کی نہیں ہے. طلاق اگر ہو جائے تو اولاد پر ماں کا کوئی قانونی استحقاق (claim) نہیں ہے‘ وہ والد کی ہے. بلکہ سورۃ البقرۃ میں جہاں طلاق کی صورت میں رضاعت کے جو تفصیلی احکام آئے ہیں ان میں یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شیر خوار بچہ ہے تو بھی باپ کی مرضی پر موقوف ہے کہ اپنے بچے کی ماں سے‘ جس کو وہ طلاق دے چکا ہے‘ دودھ پلوائے اور رضاعت کے دوران عورت کے نان نفقہ کا پورا انتظام کرے‘ لیکن اگر باپ کی مرضی ماں سے دودھ پلوانے کی نہ ہو تو قانونی طور پر اُسے یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ماں سے بچہ لے لے اور اپنے طور پر اس کی رضاعت کا انتظام کرے. قانون کا معاملہ تو یہ ہے. اس کو اوّلیت کہہ لیں‘ اقدمیت کہہ لیں‘ افضلیت کہہ لیں‘ وہ باپ کی ہے. لیکن حسن سلوک‘ ادب واحترام اور اَخلاقی معاملے کو اس طرح متوازن (balance) کیا گیا ہے کہ ماں کو تین درجے مقدم رکھ دیا گیا اور اس طرزِ عمل کے نتیجے میں جنت کی بشارت دی گئی واقعہ یہ ہے کہ یہ ان چیزوں میں سے ایک ہے کہ جن پر جب ہم غور کرتے ہیں تو قلبی یقین ہو جاتا ہے کہ شریعت کا مکمل قانون اللہ ہی کا دیا ہوا ہے. عقل انسانی اس طرح کے معاملات کو حل نہیں کر سکتی قانونی اعتبار سے اگر مرد کو تشخص نہ دیا جائے تو خاندانی نظام ہمواری سے اور smoothly نہیں چل سکتا‘ اس میں خلل واقع ہو جائے. اس کو بھی مضبوط رکھنا ہے. لیکن اگر قانونی اعتبار سے کسی کو زیادہ اختیار دے دیا گیا ہے تو اس کی تلافی کرنے اور متوازن رکھنے کا اَخلاقی سطح پر پورا پورا اہتمام کیا گیا ہے. لہذا تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ یہ نظامِ عدل وقسط کسی حکیم ِ مطلق ہستی ہی کا تجویز کردہ ہے‘کسی انسان کے بس کی یہ بات نہیں.