ہماری بہنوں کے لیے لمحہ فکریہ

ہماری ان بہنوں کو جو مغربی تہذیب سے مرعوب ہیں اور اس کی نقالی اور کورانہ پیروی ہی کو اپنے حق میں مفید گمان کرتی ہیں‘ ٹھنڈے دل سے اور سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ جوانی کے بعد بڑھاپے کا بھی ایک دور آنے والا ہے. اگر مغربی تہذیب سے شیفتگی اور دلدادگی ہو گئی ہے تو اُن کو یورپ اور امریکہ جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں بڑھاپے میں والدین کا حشر کیا ہوتا ہے. وہاں ان کی کسمپرسی کا کیا عالم ہے! وہاں جانے کے وسائل نہ ہوں تو ایسا لٹریچر موجود ہے جس کے مطالعے سے اس ذہنی کرب واذیت کی تصویر اُن کے سامنے آ جائے گی جس سے اُس معاشرے کے والدین کو سابقہ پیش آتا ہے اور جس سے ان کا بڑھاپا دوچار ہوتا ہے. ان کے سامنے یہ تلخ حقیقت آ جائے گی کہ والدین کی تکریم وعزت‘ ان کی فرمانبرداری اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی کوئی رمق بھی اُس معاشرے میں موجود نہیں ہے اور والدین کی رائے‘ پسند اور ان کی مرضی کو اس معاشرے میں پر ِکاہ کے برابر بھی وقعت نہیں دی جاتی. بیٹا اور بیٹی سینہ تان کر اپنے روز وشب کے بے راہ روی کے مشاغل پر بحث وتمحیص (argue) کرتے ہیں. وہاں کوئی باپ یا ماں اپنی اولاد کے بے مہابہ معاشقوں (courtships) اور آزادانہ اختلاط پر کوئی نکیر نہیں کر سکتے. اگر کوئی گرفت کریں گے تو منہ کی کھائیں گے. 
پھر ایک دور وہ بھی آتا ہے کہ والدین اولاد کی شکل دیکھنے کے لیے ترستے اور تڑپتے رہتے ہیں اور ان کا بڑھاپا اس حسرت میں گزرتا ہے کہ اولاد کبھی آ کر ان سے مل ہی لے.

بوڑھے والدین ‘خاص طور پر بوڑھی ماں کے لیے یہ بات سوہانِ روح ہے کہ ان کی اولاد بات کرنا تو در کنار صورت دکھانے کی بھی روادار نہیں اور احساس تنہائی اس آخری عمر میں ان کی جان کا لاگو بنا رہتا ہے. ٹھیک ہے کہ وہاں ایسے بوڑھوں کے لیے جن کے گزر اوقات کے لیے ذاتی طور پر کوئی انتظام نہ ہو‘حکومت کی سطح پر ہوسٹلوں کا اہتمام کیا گیا ہے‘ ان کے لیے علیحدہ ادارے قائم کر دیے گئے ہیں جہاں ان کی دل بستگی کے لیے indoor تفریحات مہیا کی جاتی ہیں‘ ریڈیو اور ٹیلی ویژن فراہم کیے جاتے ہیں‘ لیکن ان تفریحات سے لطف اندوز ہونا شئے دگر ہے اور اپنے بیٹے یا بیٹی کو دیکھنا‘ ان سے باتیں کرنا بالکل دوسری بات ہے. اس کے لیے وہ ترستے اور تڑپتے رہتے ہیں. کم وبیش یہی حال یہاں کے خوش حال گھرانوں کے بوڑھے والدین کا ہے. کمیت کا فرق ہو تو ہو‘ کیفیت ونوعیت میں کوئی فرق نہیں اگر اس تہذیب کو اختیار کرنا ہے تو پھر ان نتائج کے لیے تیار رہنا چاہیے جو وہاں نکل چکے ہیں اور یہاں بھی نکل کر رہیں گے. وہاں جو نتائج نکلے ہیں ان کا وہاں جا کر بچشم سر مشاہدہ کیا جا سکتا ہے. یہ کوئی محض نظری اور خیالی باتیں نہیں ہیں‘بلکہ حقائق ہیں جن کی تصدیق (verification) مشکل نہیں ہے. 

اسی ’’مساواتِ مرد و زن‘‘ کے نظریے کا ایک دل گداز (pathetic) منظر آپ کو وہاں یہ نظر آئے گا کہ بسوں ‘ٹرام گاڑیوں اور ٹرینوں میں بوڑھی عورتیں کھڑے ہو کر سفر کرتی ہیں اور ان کے لیے کوئی ہٹا کٹا جوان بھی سیٹ چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتا. اگر ’’مساوات‘‘ ہے تو ٹھیک ہے‘ جو پہلے آ گیا اور سیٹ پر قابض ہو گیا تو آخر وہ کس بنیاد پر کسی عورت کے لیے‘ خواہ وہ بوڑھی ہی کیوں نہ ہو‘ اپنی سیٹ چھوڑے! ہاں اگر کوئی فلرٹ قسم کی نوجوان خاتون ہو تو شاید وہ اس کو اپنی سیٹ دے دے. لیکن ظاہر ہے کہ اس کے پیچھے انسانی ہمدردی نہیں ہو گی‘ بلکہ شیطانی جذبہ کار فرما ہو گا. ہماری جو بہنیں مغرب سے در آمد شدہ باطل نظریۂ مساواتِ مرد و زن کی چمک دمک سے خیرہ ہو کر‘ اس کی علمبردار بن کر سڑکوں پر مظاہرہ کرنے نکل آئی ہیں ان کو اس فاسد نظریے کے ان نتائج کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے. 

علامہ اقبال مرحوم نے اس مغربی تہذیب کو بہت قریب سے دیکھا تھا. موجودہ دور اور اُس دور میں نصف صدی سے بھی زیادہ طویل عرصہ حائل ہے. اِس وقت تو یہ تہذیب کہیں زیادہ ’’ ترقی یافتہ اور آزاد خیال‘‘ ہے. اپنے دور کی تہذیب کی عکاسی علامہ مرحوم نے اپنے اشعار میں کی ہے اور ملت اسلامیہ کو اس سے حذر اور اجتناب کا پیغام دیا ہے. خاص طور پر مسلمان عورت کے لیے اقبال کے اشعار میں جو پیغام ہے اسے عالم اسلام کے جید مفکر وعالم مولانا سید ابو الحسن علی ندوی نے اپنی تالیف ’’نقوشِ اقبال‘‘ میں پیش کیا ہے. (۱مغربی تہذیب کے بارے میں علامہ مرحوم کہتے ہیں ؎ 

نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے 

اپنے ایک لیکچر میں انہوں نے اس کے لیے

"The Dazzling Exterior of the Western Civilization" 

یعنی ’’مغربی تہذیب کا چکا چوند ظاہر‘‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں.