اب ذرا دیکھئے اسلام نے بحیثیت ’’بیٹی‘‘ عورت کو کیا مقام دیا ہے. بعثت نبوی سے قبل کے عرب کا ماحول ذہن میں لائیے کہ بیٹی کی ولادت پر باپ کا کیا حال ہوتا تھا! بیٹی کی پیدائش کو وہ اپنے لیے ننگ وعار سمجھتا تھا اور لوگوں سے اپنا چہرہ چھپائے پھرتا (۱) یہ اشعار کتاب کے آخر میں بطور ضمیمہ شامل ہیں. تھا. بالآخر اس کا یہ جھوٹا احساسِ شرمندگی اور ندامت اس کو اس شقاوت پر آمادہ کر لیتا تھا کہ وہ اس پھول سی بیٹی کو کسی گڑھے میں دبا دیتا اور اسے زندہ در گور کر دیتا تھا‘ پھر اپنے اس بہیمانہ وظالمانہ فعل پر فخر کرتا تھا. ان کی اس رسم بد پر سورۃ التکویر میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس انداز میں نکیر کی گئی ہے:

وَ اِذَا الۡمَوۡءٗدَۃُ سُئِلَتۡ ۪ۙ﴿۸﴾بِاَیِّ ذَنۡۢبٍ قُتِلَتۡ ۚ﴿۹﴾ (التکویر)
’’(قیامت کے دن کیا حال ہو گا) جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا‘ کہ وہ کس قصور میں ماری گئی؟‘‘

مزید برآں اس وحشت ناک رسم کا سورۃ النحل میں چونکا دینے والے اسلوب سے یوں نقشہ کھینچا گیا: 

وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُہُمۡ بِالۡاُنۡثٰی ظَلَّ وَجۡہُہٗ مُسۡوَدًّا وَّ ہُوَ کَظِیۡمٌ ﴿ۚ۵۸﴾یَتَوَارٰی مِنَ الۡقَوۡمِ مِنۡ سُوۡٓءِ مَا بُشِّرَ بِہٖ ؕ اَیُمۡسِکُہٗ عَلٰی ہُوۡنٍ اَمۡ یَدُسُّہٗ فِی التُّرَابِ (النحل: ۵۸۵۹
’’جب ان میں سے کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اُس کے چہرے پر سیاہی اور کلونس چھا جاتی ہے اور وہ بس خون کا سا گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے. لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے کہ اس خبر کے بعد کیا کسی کو منہ دکھائے‘ سوچتا ہے کہ ذلت کے ساتھ بیٹی کو لیے رہے یا مٹی میں دبا دے.‘‘

بعثت ِ محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے بعد اسلام نے کس طرح اس صورتِ حال میں انقلاب برپا کیا ہے‘ اس کا نقشہ کتب احادیث وسیر میں دیکھئے. نبی اکرم  نے یہ تعلیم دی کہ بیٹی کا باپ ہونا ہرگز موجب ِ عار نہیں ہے‘ بلکہ موجب ِ سعادت ہے. امام مسلمؒ نے اپنی صحیح میں حضرت اَنس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے:

قَالَ رَسُوْلُ اللہِ  : مَنْ عَالَ جَارِیَتَیْنِ حَتّٰی تَبْلُغَا جَاءَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اَنَا وَھُوَ وَضَمَّ اَصَابِعَہٗ (۱(۱) صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب فضل الاحسان الی البنات. رسول اللہ  نے فرمایا: ’’جس نے دو لڑکیوں کی پرورش کی‘ یہاں تک کہ وہ بلوغ کو پہنچ گئیں تو قیامت کے روز میں اور وہ اس طرح آئیں گے‘‘. آپ  نے اپنی انگشت شہادت کو ساتھ والی انگلی سے ملا کر دکھایا. 
صحیح مسلم ہی میں یہ روایت بھی ہے:

مَنِ ابْتُلِیَ مِنَ الْبَنَاتِ بِشَیْئٍ فَاَحْسَنَ اِلَیْھِنَّ کُنَّ لَــہٗ سِتْرًا مِّنَ النَّارِ) (۱)
’’جس کے ہاں لڑکیاں پیدا ہوں اور وہ ان کی اچھی طرح پرورش کرے تو یہی لڑکیاں اس کے لیے دوزخ سے آڑ بن جائیں گی.‘‘

کہاں وہ عالم کہ معاشرہ بیٹی کا باپ ہونا باعث ِننگ وعار اور شرم سمجھتا تھا‘کہاں یہ عالم کہ اس معاشرے میں یہ بات دلوں میں راسخ ہو گئی کہ اگر کوئی بیٹیوں کی خوش دلی کے ساتھ‘ شفقت و محبت کے ساتھ پرورش کرتا ہے تو اُس کے لیے قیامت میں آنحضور  کی قربت اور نارِ جہنم سے رُستگاری کی بشارت اور نوید ہے.

اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ  کو بیٹیاں دیں. ایک نہیں‘ چار بیٹیوں کا باپ بنایا. بیٹے دیے بھی ہیں تو اُن کو بالکل نو عمری ہی میں لے بھی لیا گیا میں سمجھتا ہوں کہ اس میں بھی ایک حکمت ہے‘ وہ یہ کہ نبی اکرم  کا اسوہ اس اعتبار سے ان لوگوں کے لیے ’’مرہم‘‘ اور موجب ِاطمینان بن جائے جن کو اللہ تعالیٰ نے بیٹا نہ دیا ہو اور صرف بیٹیاں ہی دی ہوں. ان کے دل میں بیٹوں کی حسرت ہو تو وہ دیکھ لیں نبی اکرم  کو‘ جو چار بیٹیوں کے باپ تھے. اس میں اور بھی حکمتیں ہوں گی‘واللہ اعلم. یہاں ان کا احاطہ یا احصاء مقصود نہیں ہے جب آپ کے صاحبزادے حضرت قاسم کا بچپن میں انتقال ہو گیا اور اولادِ ذکور نہ رہی تو مشرکین ِمکہ نے طعنہ دیا تھا کہ محمدؐ تو (معاذ اللہ) ابتر ہوگئے‘ ان کی تو جڑ کٹ گئی‘ کیونکہ خاندان تو بیٹوں سے آگے چلتا ہے. اس پر سورۃ الکوثر میں یہ وعید آئی:

اِنَّ شَانِئَکَ ہُوَ الۡاَبۡتَرُ ٪﴿۳﴾ (۱) صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب فضل الاحسان الی البنات. ’’بلا شبہ تمہارا دشمن ہی جڑ کٹا ہے.‘‘

آپ کو تو اے نبی ہم نے ’’الکوثر‘‘ (خیر کثیر) عطا کیا ہے. اس سے یہ بھی مراد لی جاسکتی ہے کہ نبی اکرم  کی معنوی اور روحانی اولاد اتنی ہو گی کہ آسمان کے تاروں اور زمین کے ریت کے ذرّوں کی طرح گنی نہ جا سکے گی. دشمنوں کے اس طعنے کا جواب وہ رویہ ہے کہ چاروں بیٹیوں کو آنحضور  نے نہایت محبت وشفقت کے ساتھ پرورش فرمایا ہے. اُن سے آپ کو جو اُنس تھا وہ سیرتِ مطہرہ کا مطالعہ کرنے والے ہر قاری کو معلوم ہوگا. خاص طور پر آنجناب  کو حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہاسے جو محبت تھی اس کا یہ عالم تھا کہ جب وہؓ شادی کے بعد آنحضور  کی خدمت میں آتی تھیں تو نبی اکرم  ان کے لیے کھڑے ہو جایا کرتے تھے‘ ان کے لیے جگہ چھوڑ دیتے تھے‘ اپنی چادر انؓ کے لیے بچھاتے تھے اور باصرار اُس پر اُنؓ کو بٹھاتے تھے پھر آپ اپنی بیٹیوں کے لیے ’’بِضْعَۃٌ مِنِّیْ‘‘ یعنی ’’میرے جگر کا ٹکڑا‘‘ کے الفاظ استعمال فرماتے تھے. بیٹیوں کے ساتھ محبت وشفقت اور عزت واحترام کا معاملہ جناب محمد رسول اللہ نے عملاً کر کے دکھایا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس میں یہ حکمت ہے کہ پوری دنیا کو معلوم ہوجائے کہ بیٹیوں کا وجود ہرگز موجب ِشرم وعار نہیں ہے. نبی اکرم  کے اس طرزِ عمل نے بیٹی کو ذلت وعار کے مقام سے اٹھا کر اس عزت واحترام کے مقامِ بلند پر فائز فرما دیا جس کی نظیر تو درکنار ہلکی سی جھلک بھی دنیا کے کسی مذہب میں نہیں ہے‘ بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے کہ عورت کو سر تا پا شر ہی شر سمجھا گیا ہے‘ جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں.

پھر آپ  نے اپنی تین پیاری بیٹیوں کی شادیوں کے لیے ان حضرات کا انتخاب فرمایا جو بنی نوع انسان کے گل ِ سر سبد تھے‘ یعنی حضرات عثمان و علی رضی اللہ عنہما. بڑی بیٹی کا بعثت سے قبل جن صاحب سے نکاح کیا تھا وہ بھی دولت اسلام اور صحابیت کے شرف سے مشرف ہوئے. میری مراد حضرت ابو العاص بن ربیع لقیط رضی اللہ عنہ سے ہے. ہماری وہ بہنیں جو مغربی تہذیب کی چکا چوند سے متاثر ہیں‘ جس کی اصل حیثیت سراب سے زیادہ کچھ نہیں ہے‘ ذرا تقابل تو کریں مغربی تہذیب کے دیے ہوئے مقام کے ساتھ اُس مقام کا جو اسلام نے بیٹی کو دیا! وہاں جب بیٹیاں بالغ ہو جاتی ہیں تو ان کو عموماً گھر سے نکال دیا جاتا ہے. ان سے کوئی سروکار نہیں رکھا جاتا کہ وہ کس حال میں ہیں‘ یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے.

اب وہ خود کمائیں اور کھائیں‘ اپنے لیے خود شوہر تلاش کریں‘ جتنے چاہیں courtship کریں‘ والدین کو اس سے کوئی غرض نہیں. جب بیٹیوں کے ساتھ یہ معاملہ ہوتا ہے تو قیاس کر لیجیے کہ بیٹوں کے ساتھ کیا کچھ نہ ہوتا ہو گا. یہی وجہ ہے کہ یورپ اور امریکہ میں آزادانہ جنسی اختلاط عام ہے اور معاشقے کی شادیوں کا انجام اکثر طلاق پر منتج ہوتا ہے. پھر اسی صورتِ واقعہ کا نتیجہ اس سلوک کی شکل میں برآمد ہوتا ہے جو اس معاشرے میں بوڑھے والدین کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے جس کا میں ذکر کرچکا ہوں.