اب آئیے عورت کی تیسری حیثیت کے بارے میں اسلام کے نقطۂ نظر کی طرف جو اس کے بیوی ہونے کے اعتبار سے ہے. جس طرح میں نے آپ کو والد اور والدہ کے متعلق بتایا کہ قانون کے معاملے میں والد کو اور حسن سلوک کے معاملے میں والدہ کو فوقیت حاصل ہے‘ یہی صورت حال ہمیں اسلام کے عائلی نظام میں شوہر اور بیوی کے معاملے میں نظر آتی ہے. قانونی اعتبار سے مرد کو عورت پر حاکم بنایا گیا اور غلبہ دیا گیا ہے. میں نے لفظ ’’حاکم‘‘ جان بوجھ کر استعمال کیا ہے‘ کیونکہ امر واقعہ یہی ہے کہ اسلام نے شوہر کو عائلی نظام میں حاکمیت کے مقام پر فائز کیا ہے اور قرآن نے اس کے لیے لفظ ’’قوّام‘‘ استعمال کیا ہے. ماہرین لغت عربی نے اس لفظ کو راعی‘ محافظ‘ حاکم اور کفیل کے معانی اور مفاہیم کا حامل بتایا ہے. لہذا اس لفظ ’’قوّام‘‘ کا صحیح مفہوم ومطلب ہو گا وہ شخص جو کسی فرد یا ادارے یا نظام کے معاملات کو صحیح ودرست طور پر چلانے‘ اس کی حفاظت ونگہداشت کرنے اور اس کی احتیاجات وضروریات مہیا کرنے کا ذمہ دار ہو . قرآن نے سورۃ النساء کی آیت ۳۴ میں یہ اٹل‘ مستقل اور غیر متبدل اصول بیان فرما دیا ہے :

اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوۡنَ عَلَی النِّسَآءِ... (النساء:۳۴)
’’مرد عورتوں پر قوام ہیں.‘‘

مراد ہیں شوہر اور بیوی. آیت کا سیاق وسباق اسی پر دلالت کرتا ہے. اس اصول اور قانون کی علت اور حکمت کو اسی آیت میں آگے بیان کیا گیا ہے‘ جس پر میں ان شاء اللہ کچھ دیر بعد گفتگو کروں گا. یہاں میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جہاں قانونی طور پر مرد کو حاکم بنایا گیا ہے وہاں نبی اکرم  نے اخلاقی سطح پر اپنی بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کی اتنی تاکید فرمائی ہے کہ اس مختصر سے وقت میں تمام احادیث کا احاطہ ممکن نہیں. میں چند احادیث پیش کرنے پر اکتفا کروں گا جن سے آپ کے سامنے وہ توازن آ جائے جو اَخلاقی حیثیت سے نبی اکرم  نے قائم فرمایا ہے‘ تاکہ قانونی طور پر حاکم ہونے کی حیثیت سے مرد اپنی بیویوں پر تعدی اور زیادتی سے اجتناب کر سکیں. صحیح مسلم میں حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ  نے ارشاد فرمایا: 

اَلدُّنْیَا مَتَاعٌ وَخَیْرُ مَتَاعِ الدُّنْیَا الْمَرْاَۃُ الصَّالِحَۃُ (۱
’’دنیا کل کی کل برتنے کی چیز ہے‘اور اس دنیا کی بہترین متاع نیک عورت (بیوی) ہے.‘‘

یعنی لوگو! جان لو کہ اس دنیا کی زندگی کو گزارنے اور برتنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں دی ہیں ان میں سب سے بڑی نعمت نیک بیوی ہے. قدر وقیمت کے تعین کا یہ انداز سبحان اللہ! دنیا میں انسان کو بہت سی چیزیں مرغوب ہوتی ہیں اور ان سے دلی لگاؤ ہوتا ہے. مال ہے‘ دولت ہے‘ جائیداد ہے‘ جاہ وحشمت ہے‘ وجاہت ہے‘ بیٹے (۱) صحیح مسلم، کتاب الرضاع، باب خیر متاع الدنیا المرأۃ الصالحۃ . ہیں‘ بیٹیاں ہیں‘ ماں باپ اور اعزہ واقارب ہیں‘ یہ سب کچھ اپنی جگہ پر‘ لیکن دنیا کی ان تمام چیزوں میں سب سے زیادہ قابل قدر اور قیمتی شے جو اللہ تعالیٰ کسی بندے کو عطا فرماتا ہے وہ نیک اور صالح بیوی ہے. سنن ترمذی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  نے فرمایا:

اَکْمَلُ الْمُؤْمِنِیْنَ اِیْمَانًا اَحْسَنُھُمْ خُلْقًا وَخِیَارُکُمْ خِیَارُکُمْ لِنِسَائِکُمْ (۱

’’مؤمنوں میں کامل ایمان والا وہ ہے جو اَخلاق میں اچھا ہو‘ اور تم میں سے بہترین وہ لوگ ہیں جو اپنی عورتوں کے حق میں بہترین ہوں.‘‘

ترمذی ہی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے‘وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ  نے فرمایا:

خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ وَاَنَا خَیْرُکُمْ لِاَھْلِیْ (۲
’’(لوگو! جان لو کہ) تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو‘ (اور جان لو کہ) تم میں اپنے گھر والوں سے سب سے بہتر حسن سلوک کرنے والا میں خود ہوں.‘‘

ایک موقع پر نبی اکرم  نے اسی بات کو ایک منفی اسلوب سے واضح فرمایا. آپ نے لوگوں کو جمع ہونے کا حکم دیا اور خطبہ ارشاد فرمایا: 
(۱) سنن الترمذی، کتاب الرضاع، باب ما جاء فی حق المرء ۃ علٰی زوجھا، ومسند احمد. 
(۲) سنن الترمذی، کتاب المناقب عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ،باب فضل ازواج النبی  

لَقَدْ طَافَ اللَّیْلَۃَ بِآلِ مُحَمَّدٍ سَبْعُوْنَ امْرَاَۃً کُلُّ امْرَاَۃٍ تَشْتَکِیْ زَوْجَھَا فَلَا تَجِدُوْنَ اُولٰـئِکَ خِیَارَکُمْ (۱)
’’آج محمد ( ) کے گھر والوں کے پاس ستر عورتوں نے چکر لگایا ہے‘ ہر عورت اپنے شوہر کی شکایت کر رہی تھی. (میں تم سے کہہ دینا چاہتا ہوں کہ) جن لوگوں کی شکایت آئی ہے وہ تم میں اچھے لوگ نہیں ہیں.‘‘

یعنی جن شوہروں نے اپنی بیویوں سے ایسا سلوک روا رکھا ہوا ہے جس پر وہ شاکی ہیں اور جس سے ان کا قلبی اطمینان جاتا رہا ہے تو وہ اچھے لوگوں میں سے نہیں ہیں. اس اصول کی آنحضور نے تعلیم دی. شکایت صحیح ہے یا غلط‘اس کا فیصلہ تو فریقین کے بیانات کے بعد ہی لگایا جا سکتا ہے‘ اس لیے آنجناب نے تربیت کے لیے بطورِ سرزنش لوگوں کو متنبہ فرما دیا. 

یہ بات ماننی پڑتی ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کا پلڑا ہلکا ہو گیا ہے. شوہر اپنی قوامیت کے مظاہرے کے لیے تو ہر وقت آمادہ نظر آتے ہیں‘ لیکن حسن سلوک کے معاملے میں تہی دست ہیں. یہ معاملہ صحیح نہیں ہے‘ اصلاح طلب ہے اور یہ اصلاح خاندان کے ادارے کو مضبوط اور خوشگوار بنانے کا باعث بنے گی دینی گھرانوں میں یا ان گھرانوں میں جو قدامت پسند ہیں‘ چاہے دینی نہ بھی ہوں‘ قدیم روایات چل رہی ہیں‘ جن کی بنیاد دین پر نہیں ہے بلکہ ان کی خاندانی یا قبائلی روایات پر ان کے ہاں ایک نظام ورواج چل رہا ہے. ایسے خاندانوں میں یہ تقصیر، نظر آتی ہے کہ اہل وعیال کے ساتھ جس حسن سلوک کی جنا ب محمد  نے تلقین فرمائی ہے اس کا فقدان ہے. اس کمی کا ہمیں اعتراف کرنا چاہیے اور یہ بھی محسوس کرنا چاہیے کہ ایسے دینی اور روایتی خاندانوں کے غلط طرزِ عمل کی وجہ سے ان کی خواتین میں اگر کوئی ردّعمل پیدا ہوجائے تو اس کی ذمہ داری ان پر آئے گی. اگر ایسے لوگوں نے اپنی خواتین پر زیادتی کی ہے‘ اُن 
(۱) سنن ابن ماجہ‘ کتاب النکاح‘ باب ضرب النساء. کے ساتھ نا روا سلوک کیا ہے‘ ان کی عزتِ نفس کو ٹھیس پہنچائی ہے‘ اُن کے اِس قانونی تشخص کی حق تلفی کی ہے‘ اُن کے ان اخلاقی حقوق کی جو اللہ نے دیے ہیں‘ رعایت اور پاسداری نہیں کی ہے تو ان وجوہ سے خواتین کے ردّ عمل اور اس سے جو برائی جنم لے گی‘ اللہ کی عدالت میں اس کی ذمہ داری ان لوگوں پر آئے گی جو اپنے طرزِ عمل کو اس تعلیم وتلقین کے مطابق نہیں رکھ رہے ہیں جو کتاب وسنت اور شریعت نے دی ہے.

یہ تو ایک ضمنی گفتگو تھی‘ اب آئیے اصل موضوع کی طرف میں عرض کر رہا تھا کہ خاندان کے ادارے کو مستحکم کرنے کے لیے اسلام نے مرد کو برتری اور فضیلت عطا کی ہے اور اس کے لیے قرآن مجید میں لفظ ’’قوام‘‘ استعمال ہوا ہے. اس سطح پر آ کر مرد اور عورت ہرگز مساوی نہیں ہیں. اس معاملے میں مساوات کا تصور عقل کے بھی بالکل خلاف ہے‘ اس لیے کہ خاندان در اصل ایک انتظامی ادارہ 
(unit) ہے اور کسی بھی انتظامی ادارے میں مساوی اختیارات کے حامل دو سربراہ نہیں ہو سکتے. یہ ممکن ہی نہیں‘ قطعی نا قابل عمل بات ہے. آپ پورے انسانی تمدن کا جائز ہ لے لیجیے! بڑے سے بڑے اور چھوٹے سے چھوٹے ادارے کو سامنے رکھ لیجیے کہ کیا کوئی ایسا ادارہ موجود ہے کہ جس کے سربراہ دو ہوں اور بالکل مساوی اختیارات رکھتے ہوں؟ بالفرض کہیں یہ حماقت کی گئی ہو تو پھر وہ ادارہ صحیح طور پر اپنا کام انجام نہیں دے سکتا. یہ نا ممکن ہے‘ محالِ عقلی ہے. لہٰذا اگر یہ مقصد پیش نظر ہو کہ خاندان کے ادارے کو مستحکم کیا جائے‘ مضبوط بنایا جائے‘ جیسا کہ اسلام چاہتا ہے اور اس کا عین منشا ہے‘ تو قانون اور اختیار دونوں اعتبارات سے خاندان میں کسی ایک فرد کو برتری دینا ہو گی‘ اس کے بغیر خاندان کا ادارہ نہ مستحکم ہو سکتا ہے اور نہ وہ وظیفہ انجام دے سکتا ہے جو اس کے ذمہ ہے.