آپ کو معلوم ہے کہ اسلامی شریعت کا بنیادی خاکہ (blue print) ہمیں سورۃ البقرۃ میں ملتا ہے. وہاں ہمیں آیت ۲۲۸ کے آخری حصے میں یہ اساس ملتی ہے. فرمایا: 

وَ لَہُنَّ مِثۡلُ الَّذِیۡ عَلَیۡہِنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ۪ وَ لِلرِّجَالِ عَلَیۡہِنَّ دَرَجَۃٌ ؕ وَ اللّٰہُ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ ﴿۲۲۸﴾٪ (البقرۃ) 
’’عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق اُن پر ہیں‘ البتہ مردوں کو ان پر ایک درجہ (ترجیح کا) حاصل ہے‘ اور (سب پر) اللہ غالب اقتدار رکھنے والا اور حکیم ودانا موجود ہے. ‘‘ (۱

حقوق وفرائض کا ایک توازن بھی اس آیت میں بیان ہو گیا اور مرد کی ترجیح (۱) مرد وزن کی مساوات کی جو بحث آج کل اخبارات میں چل رہی ہے اس میں اس دور کی چند ’’مفسراتِ قرآن‘‘ نے اس آیت کے صرف اس حصے وَ لَہُنَّ مِثۡلُ الَّذِیۡ عَلَیۡہِنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ کو بنیاد بنا کر اس بات پر پورا زورِ استدلال صرف کیا ہے کہ قرآن تو مرد وعورت کی مساوات کا قائل ہے‘ یہ تو رجعت پسند لوگوں کی من گھڑت تاویل ہے کہ مرد کو عورت پر بالادستی حاصل ہے. ان ’’مفسرات‘‘ کو آیت کا اگلا حصہ وَ لِلرِّجَالِ عَلَیۡہِنَّ دَرَجَۃٌ قرآن میں نظر نہیں آیا. یہ بالکل اسی نوع کی جسارت ہے جیسے کوئی بد بخت ’’لاَ تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ‘‘ کے الفاظ سے یہ استدلال کرے کہ قرآن تو نماز کے قریب جانے سے منع کرتا ہے اور ’’اَنْتُمْ سُکٰرٰی‘‘ والے حصے کو چھوڑ دے. ایسی جسارت اس معاملے میں بھی کی گئی ہے کہ اگلے حصے وَ لِلرِّجَالِ عَلَیۡہِنَّ دَرَجَۃٌ ’’اور مردوں کو عورتوں پر ترجیح حاصل ہے‘‘ کو چھوڑ کر مرد وزن کے کامل مساوات کے نظریے کو قرآن سے منسوب کیا گیا ہے. یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کے ساتھ بہت بڑی گستاخی ہے جو تجدد پسند اور مغرب کے ذہنی غلاموں کی طرف سے کی جا رہی ہے. وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا 

(حاشیہ از شیخ جمیل الرحمن مرحوم، ۱۹۸۲ء) و فضیلت اور درجہ بندی بھی ظاہر ہو گئی. ساتھ ہی یہ تنبیہہ بھی کر دی گئی کہ حقوق وفرائض کے ضوابط کی صحیح ادائیگی کی نگرانی کے لیے وہ ہستی موجود ہے جو العزیز (غالب و زبردست) ہے اور جس نے کامل حکمت کے ساتھ یہ درجہ بندی کی ہے. ’’لام‘‘ اور ’’عَلٰی‘‘ کے حروفِ جار کے متعلق میں کئی بار عرض کر چکا ہوں کہ ’’لام‘‘ کسی کے حق میں کوئی چیز اور ’’عَلٰی‘‘ کسی کے خلاف جانے یا کسی پر عائد ہونے والی کسی چیز کے لیے آتا ہے. تو فرائض کو تعبیر کیا جائے گا ’’علٰی‘‘ سے‘ کہ یہ فریضہ مجھ پر عائد ہوتا ہے ‘جبکہ حق کی تعبیر کے لیے ’’لام‘‘ آئے گا‘یعنی یہ میرا حق ہے. وَ لَہُنَّ مِثۡلُ الَّذِیۡ عَلَیۡہِنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ۪ جیسے کچھ ان کے فرائض ہیں جو ان (عورتوں) پر عائد کیے گئے ہیں اسی کی مناسبت سے شریعت اسلامی نے معروف طور پر اُن کو حقوق بھی عطا کیے ہیں‘ لیکن ایک اصول یہ بھی بتا دیا گیا: وَ لِلرِّجَالِ عَلَیۡہِنَّ دَرَجَۃٌ ؕ البتہ یہ بات جان لو کہ مردوں کو اُن (عورتوں) پر ایک درجہ (فضیلت کا) حاصل ہے. گویا یہاں پیشگی ایک رہنما اصول (directive principle) بیان کر دیا گیا‘ جیسے آپ کو معلوم ہو گا کہ شراب اور جوئے کے معاملے میں سورۃ البقرۃ میں پہلا اصول یہ بیان ہوا ہے : 

یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡخَمۡرِ وَ الۡمَیۡسِرِؕ قُلۡ فِیۡہِمَاۤ اِثۡمٌ کَبِیۡرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ ۫ وَ اِثۡمُہُمَاۤ اَکۡبَرُ مِنۡ نَّفۡعِہِمَا ؕ (البقرۃ: ۲۱۹

’’(اے نبی !) یہ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھ رہے ہیں. تو ان سے کہہ دیجیے کہ اِن میں کچھ منفعتیں بھی ہیں‘لیکن ان میں گناہ اور برائی کا عنصر منفعتوں سے زیادہ ہے. ‘‘

بات یہیں چھوڑ دی گئی. ابھی حرمت کا حکم نہیں دیا گیا‘ لیکن ایک سمت (direction) معین ہو گئی کہ بات کس طرف جا رہی ہے‘ ہوا کا رُخ کیا ہے! اسی طرح سورۃ البقرۃ کی آیت ۲۲۸ میں ہوا کا رُخ متعین کر دیا گیا کہ لِلرِّجَالِ عَلَیۡہِنَّ دَرَجَۃٌ ؕ ’’جان لو کہ مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ (فضیلت کا) حاصل ہے‘‘ سورۃ النساء کی آیت ۳۲ میں یہ مضمون زیادہ واضح ہو کر آتا ہے ‘جس کا ایک حوالہ میں پہلے بھی دے چکا ہوں. یہاں فضیلت کا فلسفہ اس اسلوب سے ہمارے سامنے آتا ہے کہ:

وَ لَا تَتَمَنَّوۡا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعۡضَکُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ ؕ 
’’اور اللہ تعالیٰ نے تم میں بعض کو بعض پر جو فضیلت دی ہے اس کی تمنا نہ کرو!‘‘

تمام قدیم وجدید مفسرین کا اس پر اجماع ہے کہ یہاں حتمی اور قطعی طور پر وہ فضیلت مراد ہے جو اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر عطا فرمائی ہے. اسی آیت کا اگلا حصہ اس کو صراحت کے ساتھ کھول دیتا ہے کہ:

لِلرِّجَالِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا اکۡتَسَبُوۡا ؕ وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا اکۡتَسَبۡنَ ؕ 

’’مردوں کے لیے ان کی کمائی میں سے حصہ ہے اور عورتوں کے لیے ان کی کمائی میں سے حصہ ہے.‘‘

یعنی نیکی اور بدی کمانے کے دونوں کو مواقع حاصل ہیں. تمنا کا حاصل کچھ نہیں ہوگا‘ سوائے اس کے کہ انسان پیچ وتاب کھائے اور اس کی صلاحیت ضائع ہو. اس تمنا کی کوئی productive حیثیت نہیں ہو گی‘ یہ محض ضیاع ہوگا. اگر اللہ تعالیٰ نے تخلیق میں مرد کو عورت پر فضیلت دی ہے تو اسے کھلے دل سے تسلیم کیجیے. اس کی تمنا کرنے اور اس پر پیچ و تاب کھانے کے بجائے اس بات کو مستحضر رکھیے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جو صلاحیتیں‘ توانائیاں اور قوتیں دی ہیں اور مجھ پر جو فرائض وحقوق عائد کیے ہیں‘ آخرت میں میرا محاسبہ اس کے اعتبار سے ہوگا. انسان کی یہ طبعی کمزوری ہے کہ وہ فضیلت کے معاملے کو آسانی سے قبول نہیں کرتا. مردوں کو عورتوں پر بحیثیت مجموعی فضیلت ہے تو اس کے بارے میں عورتوں میں کمتری کے احساس کا پیدا ہونا فطری ہے. اس کے ازالے اور علاج کے لیے فرمایا گیا ہے:

وَ لَا تَتَمَنَّوۡا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعۡضَکُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ ؕ لِلرِّجَالِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا اکۡتَسَبُوۡا ؕ وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا اکۡتَسَبۡنَ ؕ وَ سۡئَلُوا اللّٰہَ مِنۡ فَضۡلِہٖ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا ﴿۳۲﴾ (النساء) 

اس آیت کا آخری حصہ انتہائی قابل غور ہے. یہ فضیلت اللہ کی دی ہوئی ہے جو ہر چیز کا علم رکھتا ہے. اُس نے یہ فضیلت‘ معاذ اللہ‘ لا علمی میں نہیں دی ہے‘ ایسے ہی اٹکل پچو نہیں دے دی‘ بلکہ علم کامل اور حکمت ِ بالغہ کی بنیاد پر دی ہے. 

آگے سورۃ النساء کی آیت ۳۴ میں یہ بات واشگاف طور پر کھول دی اور declare کر دی جاتی ہے کہ اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوۡنَ عَلَی النِّسَآءِ . قرآن حکیم کے اسلوب کو پہچانیے! پہلے ایک سمت سورۃ البقرۃ کی آیت۲۲۸ میں متعین فرمائی گئی‘ پھر ذہنوں کو تیار کرنے کے لیے سورۃ النساء کی آیت ۳۲ میں فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے جس کو جس پر فوقیت اور فضیلت دے دی ہے اس کو خوش دلی سے تسلیم(reconcile) کرنا چاہیے. اس پر رشک کرنے‘ اس کی تمنا کرنے اور اس پر شکوہ وشکایت کرنے کے بجائے راضی برضا ہو کر اپنے طرزِ عمل کو درست کیا جانا چاہیے. اس کے بعد ایک اٹل‘ دائمی اور ابدی ضابطہ بیان فرما دیا گیا: 

اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوۡنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعۡضَہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ.... (النساء:۳۴

’’مرد عورتوں پر قوام ہیں‘ اس سبب سے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت عطا فرمائی ہے…‘‘
تفضیل کے لیے وہی الفاظ معمولی سے فرق کے ساتھ یہاں بھی آ گئے جو آیت ۳۲ میں آئے تھے قوام کے لفظ کی کچھ تشریح میں پہلے کر چکا ہوں. یہاں یہ سمجھ لیجیے کہ یہ لفظ قائم سے مبالغے کا صیغہ ہے‘ جیسے فاعل سے فعال. اس مبالغے کی وجہ سے قائم (کھڑا ہونے والا) کے مفہوم میں انتہائی وسعت پیدا ہو گئی. اس میں محافظت اور حاکمیت کی حیثیت سے کھڑے ہونے کے معنی بھی شامل ہو گئے. اس قوام کے لفظ نے مرد کی حیثیت نگران و نگہبان اور حاکم کی بھی قرار دے دی. 
علامہ اقبال مرحوم نے اسی مفہوم کو اس طرح ادا کیا ہے کہ ؏ نسوانیت ِ زن کا نگہباں ہے فقط مرد!

اس قوامیت کی ایک بنیاد کو اللہ تعالیٰ نے بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعۡضَہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ کے الفاظ سے بیان کر دیا. ایک تو تخلیقی فضیلت ہے جو اللہ نے مردوں کو عورتوں پر دی ہے. ان کو جسمانی قوت زیادہ دی ہے‘ ان میں توانائی دی ہے‘ ان میں بھاگ دوڑ کی صلاحیت زیادہ ہے‘ ان میں اختراع وایجاد کا جوہر زیادہ ہے‘ ان میں حکمرانی وجہاں بانی کا حوصلہ و ولولہ زیادہ ہے‘ ان کی فطرت میں جنگ وجدال کا داعیہ زیادہ ہے‘ ان میں عزیمت زیادہ ہے‘ معاشی جدوجہد اور محنت وکوشش کا مادہ زیادہ ہے‘ ان میں فاعلیت زیادہ ہے. لہذا اِن اوصاف اور صفات کی وجہ سے انہیں عورتوں پر قوام بنایا گیا ہے اور اس قوامیت کے تمام لوازم ان کے سپرد کیے گے ہیں. وہ خاندان کے ادارے کے حاکم‘ محافظ اور نگہبان ہیں. دین واَخلاق کے معاملات کی نگرانی کے ذمہ دار بھی وہی ہیں. بیوی اور بچوں کی کفالت اور خاندان کی ضروریاتِ زندگی کی فراہم رسانی کی ذمہ داری بھی اُن پر ہے. لہذا ان کی بیویوں اور بچوں پر ان کی اطاعت فرض ہے (بشرطیکہ وہ اللہ اور اُس کے رسول  کی نا فرمانی کا حکم نہ دیں). اسی بات کو رسول اللہ  نے اس طرح بیان فرمایا ہے: 

اَلرَّجُلُ رَاعٍ فِیْ اَھْلِہٖ وَھُوَ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّـتِہٖ
’’مرد اپنے اہل وعیال پر حکمران ونگران ہے‘ اور وہ اپنی رعیت کے بارے میں (اللہ کے سامنے) جواب دہ ہے.‘‘

اس حدیث کو امام بخاریؒ نے قُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَ اَہۡلِیۡکُمۡ نَارًا (التحریم:۶کی تفسیر میں روایت کیا ہے -ـــ حدیث کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے‘ جو بہت زیادہ مشہور ہیں:

کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ (۱(۱) صحیح البخاری، کتاب الجمعۃ، باب الجمعۃ فی القری والمدن اور دیگر مقامات. صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضیلۃ الامام العادل… ’’تم میں سے ہر ایک (اپنے اپنے دائرۂ اختیارمیں) راعی (نگران وحکمران) ہے اور تم میں سے ہر ایک اپنی رعیت کے بارے میں (اللہ کے ہاں) جواب دہ ہے.‘‘

اللہ تعالیٰ نے اپنی فیض بخشیوں سے مرد کو اگر ان پہلوؤں سے زیادہ نوازا ہے جن کا میں نے ابھی ذکر کیا تو عورت کو چند دوسرے پہلوؤں سے مالا مال کیا ہے. اس میں مرد کی تخلیق وایجاد کے ثمرات ونتائج کو سنبھالنے کا سلیقہ اور ہنر عطا فرمایا ہے. اس کو گھر بنانے اور بسانے کی قابلیت بخشی ہے. اس میں گھر گرہستی کے کاموں‘ بچوں کی پرورش ونگہداشت اور گھریلو امور سے ایک فطری مناسبت ودیعت کی ہے .اس کے اندر دل کشی‘ دل ربائی‘ شیرینی اور حلاوت کا جمال رکھا ہے. خاندان کی اندرونی تنظیم میں اسے گھر کے حاکم کی ملکہ کا مقام عنایت کیا ہے. کسب ِ معاش کی ذمہ داری شوہر پر رکھی ہے تو اس کمائی سے گھر کا انتظام کرنا اس کے ذمہ لگایا ہے. رسول اللہ  سے سورۃ التحریم کی آیت 
قُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَ اَہۡلِیۡکُمۡ نَارًا کی تفسیر میں صحیح بخاری میں یہ قول بھی منقول ہے: 

اَلْمَرْاَۃُ رَاعِیَۃٌ عَلٰی بَیْتِ زَوْجِھَا وَھِیَ مَسْئُوْلَـۃٌ عَنْھَا
’’عورت اپنے شوہر کے گھر کی حکمران ہے اور وہ اپنی حکومت کے دائرہ میں اپنے عمل کے لیے جواب دہ ہے. ‘‘

یہ خالق وفاطر کائنات کی خلاقی کا کمال ہے کہ اس نے اگر مرد میں فعالیت کی صلاحیت رکھی ہے تو عورت کو انفعال کی اہلیت سے نوازا ہے. فعل وانفعال دونوں اس کارخانہ ہستی اور کارگاہِ حیات کو چلانے کے لیے یکساں ضروری ہیں. دونوں کا اپنی اپنی جگہ اور اپنے اپنے دائرۂ عمل میں ایک اہم مقام ہے. اب اگر یہ دونوں ایک دوسرے کے دائرۂ عمل اور حدودِ کار میں بے جا مداخلت کریں گے یا ایک دوسرے کے قدرت کے تفویض کردہ امور کے بارے میں چھینا جھپٹی کریں گے تو تمدن میں فساد اور بگاڑ پیدا ہو گا اور یہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے قدرت کی تقسیم کار 
کے خلاف بغاوت ہو گی‘ جس کے مہلک نتائج بنی نوعِ انسان نے پہلے بھی بھگتے ہیں اور اب بھی بھگت رہی ہے. ایسے مردوں اور عورتوں پر لعنت کی گئی ہے جو ایک دوسرے کی نقالی کی روش اختیار کرتے ہیں. سنن ابی داؤد کی دو روایتیں اس مفہوم کو سمجھنے میں ان شاء اللہ کفایت کریں گی. پہلی روایت کے الفاظ ہیں: 

عَنِ ابْنِ عَبَّاس رضی اللہ عنہما عَنِ النَّبِیِّ اِنَّـہٗ لَعَنَ الْمُتَشَبِّھَاتِ مِنَ النِّسَآءِ بِالرِّجَالِ وَالْمُتَشَبِّھِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَآءِ. (۱
’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم  نے اُن عورتوں پر لعنت کی ہے جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں اور اُن مردوں پر لعنت کی ہے جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں.‘‘ 

دوسری روایت ہے:

عَنَ رَسُوْلُ اللہِ  اَلرَّجُلَ یَلْبَسُ لِبْسَۃَ الْمَرْاَۃِ وَالْمَرْاَۃَ تَلْبَسُ لِبْسَۃَ الرَّجُلِ. (۲

’’رسول اللہ  نے اُس مرد پر لعنت کی ہے جو عورت کا لباس پہنے اور اُس عورت پر لعنت کی ہے جو مرد کا لباس پہنے.‘‘