اسی آیت میں آگے نہایت پیارے اور دلنشین (۱) جہیز اور بارات کے طعام کی جو رسوم ہمارے معاشرے میں رائج ہیں ان کا اسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے. یہ رسوم اپنی روح اور عمل دونوں اعتبارات سے خالص ہندوانہ ہیں. (مرتب) اور واضح انداز میں عورتوں کے لیے رہنمائی عطا فرما دی گئی کہ مرد کی فضیلت وقوامیت کے پیش نظر ان کا طرزِ عمل کیا ہونا چاہیے. فرمایا:

فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلۡغَیۡبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ ؕ 

’’پس نیک بیبیوں کو سزاوار ہے کہ وہ فرماں برداری کرنے والی اور مردوں کے پیچھے اُن کے حقوق اور رازوں کی حفاظت کرنے والی بنیں بوجہ اس کے کہ اللہ نے اس چیز کی حفاظت کی ہے.‘‘

آیت مبارکہ کے اس ٹکڑے میں ایک صالح بیوی کی دو صفات بیان کی گئیں. ایک یہ کہ وہ 
قانتہ ہو‘ دوسری یہ کہ وہ حَافِظۃٌ للغیب ہو ترجمے سے ان صفات کا ایک اجمالی مفہوم آپ کے سامنے آ گیا ہو گا‘ لیکن ضرورت ہے کہ اس کو مزید واضح کیا جائے. اس حصے کی ترجمانی اور تشریح وتوضیح یوں ہو گی کہ از روئے قرآن مجید صالح اور نیک بیویاں وہ ہیں‘ یا از روئے اسلام قابل تعریف طرزِ عمل اور کردار اُن خواتین کا ہے جن میں دو اوصاف موجود ہوں. 

ایک یہ کہ وہ 
قانِتاتٌ ہوں‘ یعنی شوہروں کی فرمانبردار ہوں‘ ان کا حکم مانیں. ظاہر بات ہے کہ وہ حاکم کیا ہوا جس کا حکم نہ مانا جائے! یہ ضرور ہے کہ حاکم مطلق صرف اللہ ہے‘ شوہر کا حکم اگر اللہ کے حکم کے خلاف ہے تو نہیں مانا جائے گا‘ لیکن اللہ اور اُس کے رسول  کے اَحکام کے دائرے میں شوہر کا حکم ماننا بیوی پر لازم اور فرض ہے. اس لزوم اور فرضیت کے باہمی ربط کو شوہر کے لیے قوام (حاکم) اوربیوی کے لیے قانتہ (فرماں بردار) کے الفاظ سے بالکل واضح اور نمایاں کر دیا گیااور نظم قرآن کے اس اعجاز سے ثابت ہو گیا کہ عائلی زندگی میں شوہر کو حاکم کی حیثیت حاصل ہے.

دوسرا وصف یہ ہے کہ وہ 
حافِظاتٌ لِلغیب ہوں. اس اسلوب میں بڑی جامع باتیں آگئی ہیں. اس میں اپنی عصمت وعفت کی حفاظت بھی ہے در حقیقت اب وہ صرف اس کی عصمت نہیں ہے بلکہ شوہر کی آبرو اور اس کی ناموس ہے. جب تک شادی نہیں ہوئی تھی عورت کی عصمت اُس کی ذاتی اور خاندان والوں کی آبرو اور عصمت تھی‘ جب وہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو کر ایک شخص کی بیوی بن گئی ہے تو اس میں اضافی طور پر اس کے شوہر کی عزت وناموس بھی شامل ہو گئی . اسی طریقے سے نیک بیویوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے شوہروں کے رازوں کی حفاظت کریں. شوہر کے رازوں سے بیوی سے زیادہ کوئی دوسرا آگاہی رکھ سکتا ہی نہیں!ایک صالح بیوی کا طرزِ عمل یہ ہو گا کہ وہ شوہر کے رازوں اور کمزوریوں کو چھپائے‘ ان کی حفاظت کرے . اگر وہ ان کو افشا کرتی ہے تو یہ طرزِ عمل اس کردار کے بالکل منافی اور متضاد ہو گا جو کتاب وسنت سے ایک صالح اور آئیڈیل بیوی کا ہمارے سامنے آتا ہے. پس اس آیت سے یہ بات واضح طور پر ہمارے سامنے آگئی کہ جب میاں بیوی کا رشتہ قائم ہو تو ایک خاتون کا صحیح طرزِ عمل کیا ہونا چاہیے.