آگے چلیے! یہ جو عقدۃ النکاح ہے اس میں بھی فرق وتفاوت ہے. اس گرہ کے بندھنے میں یقینا عورت کی مرضی بھی شامل ہوتی ہے. لڑکی سے اس کا ولی اجازت لے کر آتا ہے اور نکاح پڑھانے والے کے ذریعے ایجاب یعنی پیش کش کرتا ہے اور لڑکا یہ پیشکش قبول کرتا ہے. اگر لڑکی اجازت نہ دے تو یہ بندھن نہیں بندھ سکتا. یہ قانونی تشخص اس کو حاصل ہے‘ اس کی مرضی کے بغیر نکاح نہیں ہو گا. اس میں یہ وضاحت کر دی گئی ہے کہ اگر لڑکی کنواری ہے تو اس کے سامنے ذکر کر دیا جائے اور وہ خاموش رہے تو یہ خاموشی بھی رضا شمار ہوتی ہے. چنانچہ ’’خاموشی نیم رضا‘‘ ہمارے ہاں محاورہ بن گیا ہے (یہاں ’’خاموشی‘‘ پر جو عربی لفظ نہیں ہے‘ ال لگانا بڑا ہی مضحکہ خیز ہے). لیکن اگر عورت ثیبہ ہے‘ یعنی مطلقہ ہے یا بیوہ ہے تو اس میں صراحت کی گئی ہے کہ نکاحِ ثانی کے لیے اس کی کامل اجازت ضروری ہے. یعنی جب تک وہ زبان سے نہ کہے بات پوری نہیں ہوگی لیکن اس گرہ کے بندھ جانے کے بعد معاملہ مساوی نہیں رہا. اب گرہ مرد کے ہاتھ میں ہے. اسے اختیار ہے وہ جب چاہے اس گرہ کو کھول دے. جب چاہے طلاق دے دے. سورۃ البقرۃ کی آیت ۲۳۷ میں اس اختیار کو بایں الفاظ بیان کیا گیا ہے: 

الَّذِیۡ بِیَدِہٖ عُقۡدَۃُ النِّکَاحِ ؕ 

’’وہ (مرد) جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے.‘‘
قانونی طور پر اُسے طلاق دینے اور نکاح کی گرہ کھولنے کا کامل اختیار ہے. تحدید اگر ہے تو وہ اَخلاقی ہے. اگر وہ کسی حقیقی سبب کے بغیر ایسا کرتا ہے تو بہت بڑا ظلم کرتا ہے‘ جس کی اُسے اللہ کے ہاں جواب دہی کرنی ہو گی. حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ رسول اللہ  نے خبردار فرما دیا : 

اَبْغَضُ الْحَلَالِ اِلَی اللہِ تَعَالٰی الطَّلَاقُ (۱)
’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے بری چیز طلاق ہے.‘‘

قانون اپنی جگہ ہے‘ لیکن ساتھ ہی اخلاقی پابندی بھی عائد کر دی گئی ہے. اس طرح اس کو متوازن (balance) کیا گیا ہے. مرد کسی حقیقی سبب سے طلاق دیتا ہے تو اُس کو مکمل اختیار ہے‘ لیکن اگر بلا سبب اُس نے طلاق دے کر کسی خاتون کی زندگی تباہ کی ہے‘ جس کا اختیار بہر حال اُسے حاصل ہے‘ تو ایسا شخص جان رکھے کہ وہ اللہ کے ہاں بہت بڑا مجرم بن کر پیش ہو گا. البتہ بیوی کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ جب چاہے اس گرہ کو کھول دے‘ بلکہ اُسے ’’خلع‘‘ حاصل کرنے کا حق دیا گیا ہے. وہ علیحدگی چاہے تو اسے قاضی کی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا ہو گا اور قاضی کو بتانا ہو گا کہ وہ کن اسباب کی بنا پر علیحدگی کی خواہاں ہے.

اسلامی عدالتیں نہ ہوں تو وہ برادری ‘ قبیلے یا خاندان کے بزرگوں کو درمیان میں ڈال کر ’’خلع‘‘ حاصل کر سکتی ہے‘ جیسا کہ انگریزوں کی حکومت کے دور میں عموماً ہوتا رہا ہے اور اب بھی عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ قبیلے یا برادری کے بزرگ عورت کی داد رسی کرتے ہیں اور تصفیہ (۱) سنن ابی داؤد‘ کتاب الطلاق‘ باب فی کراھیۃ الطلاق. وسنن ابن ماجہ‘ کتاب الطلاق کرا دیتے ہیں. ان کے سامنے عورت اسباب پیش کر سکتی ہے کہ میں اس مرد کے گھر میں نہیں بس سکتی. اس میں عورت کو یہاں تک بھی اختیار دیا گیا ہے کہ مجرد یہ بات بھی ’’خلع‘‘ کی بنیاد بن سکتی ہے کہ اُسے مرد پسند نہیں ہے. یہ سب اس لیے کہ زن وشو میں جو مودّت وموافقت اور مزاج کی پوری ہم آہنگی خاندانی نظام کے پر سکون ہونے کے لیے درکار ہے‘ اگر وہ موجود ہی نہیں ہے تو یہ گاڑی کیسے چلے گی! لہذا جیسے عورت کی طرف مرد کی رغبت ہونی ضروری ہے اسی طرح عورت کی رغبت بھی مرد کی طرف ضروری ہے. 

حاصل کلام یہ کہ عورت کو یہ آزادی حاصل نہیں ہے کہ وہ جب چاہے از خود اس گرہ کو کھول دے. اُسے ’’خلع‘‘ کے لیے مرافعہ کرنا ہو گا‘مجاز ادارے کو مطمئن (convince) کرنا پڑے گا. اپنے بڑوں کے سامنے اپنی واقعی مجبوریاں پیش کرنی ہوں گی تاکہ معلوم ہو جائے کہ عورت محض شدتِ جذبات سے مغلوب ہو کر اتنا بڑا قدم نہیں اٹھا رہی‘ بلکہ حقیقی اسباب اور مشکلات موجود ہیں بہر حال یہ بات پیش نظر رہنی ضروری ہے کہ طلاق اور خلع اپنے status کے اعتبار سے علیحدہ علیحدہ چیزیں ہیں‘ یہ مساوی نہیں ہیں. جہاں بھی ان کو مساوی کیا گیا ہے وہاں جو فساد رونما ہوا ہے وہ دنیا میں خوب جانا پہچانا ہے. 

اب میں چاہوں گا کہ آپ سورۃ البقرۃ کی آیت ۲۳۷ مع ترجمہ مطالعہ کر لیں اور اس کے مضمرات کو بھی سمجھ لیں. پوری آیت یہ ہے:

وَ اِنۡ طَلَّقۡتُمُوۡہُنَّ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ تَمَسُّوۡہُنَّ وَ قَدۡ فَرَضۡتُمۡ لَہُنَّ فَرِیۡضَۃً فَنِصۡفُ مَا فَرَضۡتُمۡ اِلَّاۤ اَنۡ یَّعۡفُوۡنَ اَوۡ یَعۡفُوَا الَّذِیۡ بِیَدِہٖ عُقۡدَۃُ النِّکَاحِ ؕ وَ اَنۡ تَعۡفُوۡۤا اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی ؕ وَ لَا تَنۡسَوُا الۡفَضۡلَ بَیۡنَکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ ﴿۲۳۷﴾ 

’’اور اگر تم نے ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی ہو‘لیکن مہر مقرر کیا جا چکا ہو تو اس صورت میں نصف مہر دینا ہو گا‘یہ اور بات ہے کہ عورت نرمی برتے (اور مہر نہ لے) یا وہ مرد جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے‘نرمی سے کام لے (اور پورا مہر ادا کر دے)‘ اور تم (یعنی مرد) نرمی سے کام لو تو یہ رویہ تقویٰ سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے. آپس کے معاملات میں فیاضی کو نہ بھولو! یقینا اللہ تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے.‘‘

یعنی اس میں تلقین کی گئی ہے کہ اگرچہ نکاح کی گرہ مرد کے ہاتھ میں ہے اور وہ جب چاہے اسے کھول سکتا ہے‘لیکن اگر نکاح کے بعد خلوت میں ملاقات نہ ہوئی ہو اور مرد طلاق دے دے تو اس صورت میں اسے قانوناً تو نصف مہر ادا کرنا ہوگا‘ لیکن اللہ نے مرد کو عورت پر جو فضیلت دی ہے مرد اس کو نظر انداز نہ کرے‘ بلکہ اس کی رعایت کرے اور پورا مہر ادا کرے‘ یہ طرزِ عمل تقویٰ کے زیادہ قریب ہے مرد کی فضیلت کی دلیل اس آیت میں بھی موجود ہے.