اب آیئے ستر وحجاب اور اسلام میں عورت کے اصل مقام کے مسائل کی طرف! یہ وہ مسائل ہیں جن کے متعلق میری آراء اور میرے نظریات پر‘جو در اصل میرے نہیں بلکہ قرآن و سنت کے احکام ہی سے ماخوذ و مستنبط ہیں‘ اخبارات و رسائل میں میرے خلاف ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا ہے. دورِ حاضر کی کچھ ’’عالمات وفاضلات اور مفسراتِ قرآن‘‘ فرما رہی ہیں کہ ’’ڈاکٹر اسرار اسلام سے نا واقف ہے‘ وہ رجعت پسند اور قدامت پسند ہے‘ وہ دقیانوسی نظریات وخیالات رکھتا ہے‘‘. وہ مطالبہ کر رہی ہیں کہ اسے مجلس شوریٰ سے نکالو. اس کا ٹی وی پروگرام ’’الہدیٰ‘‘ بند کرو (۱. وہ عورتوں کے حقوق غصب کرنا چاہتا ہے‘ وہ آزادیٔ نسواں کا دشمن ہے. 

ان سب باتوں کے جواب میں‘ میں اپنی اُن بہنوں سے عرض کروں گا کہ میں نے کبھی عالم ِ دین ہونے کا دعویٰ نہیں کیا. میں نے اپنے متعلق جب کچھ کہا ہے تو یہی کہ 
(۱) مغرب زدہ خواتین کی خوشنودی کے لیے بالآخر جولائی ۱۹۸۲ء سے ’’الھدیٰ‘‘ بند کر دیا گیا جبکہ مطالعہ قرآن حکیم کا منتخب نصاب نصف تک پہنچا تھا. (مرتب) میں قرآن مجید کا محض ایک ادنیٰ طالب علم اور سنت رسول کا ادنیٰ درجے ہی میں سہی ایک والہ وشیفتہ ہوں رہا رجعت پسندی اور قدامت پسندی کا سوال‘ تو مجھے اپنی اس رجعت وقدامت پسندی پر فخر ہے کہ میرے لیے اصل معیارِ حق وباطل وہ کتاب اللہ اور سنت ِ رسول اللہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام ہے جس پر آج سے سوا چودہ سو سال قبل وہ معاشرہ وجود میں آیا تھا جس سے زیادہ صالح معاشرہ اس سینۂ گیتی کے اوپر اور فلک نیلی فام کے نیچے کبھی قائم نہیں ہوا اور جس کی برکات کا کچھ پرتو اب بھی عالم میں موجود ہے اور جس کی کامل برکات سے بہرہ مند ہونے کے لیے بنی نوع انسان کا اجتماعی ذہن لا شعوری طور پر ہنوز پیاسا‘ جویا اور متلاشی ہے. بقول علامہ اقبال ؎

ہر کجا بینی جہانِ رنگ و بو
زاں کہ از خاکش بروید آرزو
یا ز نورِ مصطفی ؐ اُو را بہاست!!
یا ہنوز اندر تلاشِ مصطفی ؐ است

میں ایسی تمام بہنوں اور بھائیوں سے وہی بات عرض کروں گا جو ’’خَلقِ قرآن‘‘ کا فتنہ برپا ہونے کے دور میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ علیہ نے کہی تھی کہ: 

’’اِیْتُوْنِیْ بِشَیْئٍ مِنْ کِتَابِ اللہِ وَسُنَّۃِ رَسُوْلِـہٖ حَتّٰی اَقُوْلَ‘‘
(میرے پاس اللہ کی کتاب اور اُس کے رسول  کی سنت سے کوئی دلیل لاؤ تو میں لازماً مان لوں گا!)