میں قرآن و سنت کے اپنے حقیر مطالعے کی بنیاد پر پورے وثوق‘ اعتماد اور دعوے سے عرض کروں گا کہ ستر وحجاب کے مکمل قوانین وضوابط قرآن و سنت نے مقرر کیے ہیں‘ اس مسئلے سے متعلق اَحکام بڑی تفصیل سے دیے ہیں‘ بہت واضح طور پر دیے ہیں‘ اِن میں کوئی ابہام نہیں ہے.پھر یہ کہ قرآن وحدیث نے عورت کا اصل مقام اس کا گھر قرار دیا ہے. میں یہ بھی عرض کرتا ہوں کہ جو شخص کسی درجے میں بھی کتاب وسنت سے تھوڑی سی واقفیت رکھتا ہو اور اُس کے دل میں کچھ خوف وخشیت ِالٰہی بھی موجود ہو وہ میرے اس دعوے کو چیلنج نہیں کر سکتا.

عورت کے دائرۂ کار اور ستر وحجاب کی شرعی حدود کی بحث میں حصہ لینے والے مرد اور خواتین خود کو مسلمان کہتے ہیں‘ لیکن ان کا رویہ یہ ہے کہ وہ قرآن وسنت کا اتباع اور اسلام کی پیروی کرنے کے بجائے اپنی خواہشات ونظریات کے پیچھے چلنا چاہتے ہیں. وہ ظاہر یہ کرتے ہیں کہ ان سے زیادہ اسلام کو سمجھنے والا اور اس کا شیدائی کوئی نہیں اور انہیں قرآن وسنت سے انکار نہیں ہے‘ انہیں انکار ہے تو ’’دین ِ ملا‘‘ یا ڈاکٹر اسرار جیسے ’’رجعت پسند و قدامت پسند‘‘ لوگوں کے نظریات وافکار سے ہے. میں اپنی ان تمام بہنوں سے جو یہاں میری بات سننے تشریف لائی ہیں اور آپ تمام حضرات سے درخواست کروں گا کہ پہلے سے قائم شدہ نظریات وتصورات سے اپنے ذہن کو خالی کرکے قرآن وسنت کی تعلیمات پر معروضی طور پر غور فرمایئے. ان شاء اللہ آپ کے سامنے واضح طور پر یہ بات آ جائے گی کہ از روئے قرآن وسنت ستر وحجاب کے احکام کیا ہیں اور عورت کا اصل مقام کیا ہے !!