آج سے تقریباً دو سو سال قبل جب انگریزی استعمار اور امپیریلزم کا غلبہ بر عظیم پاک وہند میں شروع ہوا اور سیاسی غلامی پایۂ تکمیل کو پہنچ گئی تو ساتھ ہی ’’اَلنَّاسُ عَلٰی دِیْنِ مُلُوْکِھِمْ‘‘ کے مقولے کے مطابق ذہنی غلامی اوراستیلاء کے دور کا آغاز ہوا اور یہاں کے ان مسلمانوں نے جنہوں نے انگریزی تعلیم حاصل کی اور جو سرکاری مناصب تک پہنچے‘ مرعوب ذہنیت کے ساتھ مغربی طور طریقے‘ طرزِ بود وباش اور طرزِ معاشرت اختیار کرنی شروع کی. دوسری جنگ عظیم کے بعد جو مسلم ممالک یورپ کے پنجہ استبداد میں گرفتار ہوئے تو وہاں بھی مُترفین اس تہذیب کی کورانہ تقلید میں لگ گئے. اس طرح جدید تعلیم یافتہ نسل اس بات کو فراموش کر بیٹھی کہ شریعت ِ اسلامی میں ستر وحجاب کے اَحکام بھی ہیں اور عورت کا اصل دائرہ ٔکار بھی معین ہے. 

اس بات کو جان لیجیے کہ ستر وحجاب کے ضمن میں بھی یہ اصول کار فرما رہا ہے کہ یہ احکام بھی بتدریج نازل ہوئے ہیں. یہ تمام احکام دو سورتوں یعنی سورۃ الاحزاب اور سورۃ النور میں مکمل ہو جاتے ہیں. ان دونوں سورتوں کے زمانۂ نزول کو اگر سامنے رکھا جائے‘ جو حکمت تشریع کو سمجھنے کے لیے از حد ضروری ہے‘ تو معلوم ہو جائے گا کہ پہلا حکم کون سا ہے اور دوسرا کون سا! کثیر التعداد اور معتبر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سورۃ الاحزاب پہلے نازل ہوئی ہے‘ غزوۂ اَحزاب کے دوران یا اس کے فوراً بعد. اس میں حجاب کے ابتدائی احکام ہیں. یہ غزوہ شوال ۵ھ میں ہوا تھا. سورۃ النور غزوہ بنی المصطلق کے بعد نازل ہوئی ہے جو شعبان ۶ھ کا واقعہ ہے. اس میں ستر وحجاب کے تکمیلی احکام بیان ہو گئے ہیں. اسی غزوے کے دوران واقعہ اِفک پیش آیا‘ یعنی اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا دورانِ سفر ہار ٹوٹ گیا تھا جس کی تلاش کی وجہ سے آپؓ قافلے سے پیچھے رہ گئی تھیں اور پھر صفوان بن معطل سُلمی رضی اللہ عنہ کے ساتھ آکر قافلے میں شامل ہوئیں‘ اور اس واقعے کو منافقین نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت جڑنے کا بہانہ بنا لیا. اس اِفک سے اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی براء ت اسی سورۃ النور میں نازل ہوئی ہے.