اب پہلے ایک اصل الاصول سمجھ لیجیے. سورۃ الاحزاب میں ایک آیت آئی ہے جس کا ابتدائی حصہ آپ سب نے سیرتِ مطہرہ کی تقاریر کے ضمن میں لازماً سنا ہو گا. آیت یہ ہے: لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ (الاحزاب:۲۱)

’’(اے مسلمانو!) تمہارے لیے رسول اللہ ( ) کی سیرت میں ایک نہایت عمدہ نمونہ (اور اسوۂ کاملہ) ہے.‘‘

یعنی اس اُسوہ کو دیکھو! اس کو سمجھو اور اس کو اپنے لیے آئیڈیل بناؤ. اس کا اتباع اور اس کی پیروی کرو‘ اس سے قریب سے قریب تر ہونے کی کوشش کرو. تا قیامِ قیامت آنحضور  کی سیرتِ مطہرہ مسلمانوں کے لیے ایک بہترین اور اکمل اُسوہ ونمونہ ہے. اب غور کیجیے کہ مسلمان مردوں کے لیے تو ہر لحاظ سے اور ہر اعتبار سے نمونہ آنحضور  کی ذاتِ اقدس ہے. مرد کی ایک حیثیت شوہر کی ہے‘ اس کے لیے بھی آنجناب نمونہ ہیں.

الغرض شوہر کی حیثیت ہو یا باپ اور خسر کی‘ معلم کی حیثیت ہو یا مربی و مزکی کی ‘سربراہِ مملکت کی حیثیت ہو یا قاضی القضاۃ کی‘ سپہ سالار یا جنرل کی حیثیت ہو یا فاتح کشور کی‘ ہر حیثیت میں آنحضور  مردوں کے لیے یقینا اکمل واَتم نمونہ واُسوہ ہیں لیکن مسلمان خواتین کے لیے آنحضرت کی سیرت اور زندگی مکمل نمونہ نہیں بن سکتی. میرے اس جملے میں خاص طور پر ’’مکمل نمونہ‘‘ کے الفاظ توجہ چاہتے ہیں. بطورِ خاتون‘ بطور بیوی‘ بطورِ بیٹی اور بطور ماں یہ اُسوہ تو آپ کو آنحضور  کی زندگی میں نہیں ملے گا‘ حالانکہ یہ بہت ضروری ہے. عورت کی ان حیثیتوں کے لیے بھی تو کوئی نمونہ‘ کوئی اُسوہ‘ کوئی آئیڈیل ہونا چاہیے کہ جس کو دیکھ کر تا قیامِ قیامت مسلمان خواتین اپنے طرزِ عمل کو معین کریں.

حضور  کی زندگی کے جو دوسرے پہلو ہیں وہ یقینا خواتین کے لیے بھی اسوہ ہیں. عبادت عورتوں کو بھی کرنی ہے. وہ دیکھیں کہ آنحضور  کی زندگی میں عبادت کا کیا معمول رہا ہے‘ اس کی پیروی کریں. نماز انہوں نے بھی پڑھنی ہے‘ لہذا صَلُّوْا کَمَا رَاَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ کی ہدایت جیسے مردوں کے لیے ہے ویسے عورتوں کے لیے بھی ہے. لیکن جو مسائل ومعاملات خواتین کے لیے مخصوص ہیں‘ انمسائل و معاملات کیلئے اسوہ کون ہو گا؟ یہ سوال خوب اچھی طرح ذہن نشین کر لیجیے. اس طرح وہ حقیقت آپ کے سامنے بالکل واضح اور مبرہن ہو کر آئے گی کہ اسی سورۃ الاحزاب میں جس میں یہ آیت آئی: لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ ازواج ِمطہرات سے خطاب ہو رہا ہے کہ در حقیقت وہ ہیں ہمیشہ ہمیش کے لیے اُمت کی خواتین کے واسطے اُسوہ اور نمونہ. بالخصوص ان معاملات میں جو خواتین ہی سے تعلق رکھتے ہوں‘ اُمہات المؤمنین یعنی نبی اکرم  کی ازواج ِ مطہرات رضی اللہ عنھن ہی اسوہ بننے کا استحقاق رکھتی ہیں.

میں نے یہ بات اتنی وضاحت سے اور زور دے کر اس لیے بیان کی ہے کہ سورۃ الاحزاب میں بظاہر خطاب آنحضور  کی بیویوں سے ہے‘ جس سے ہماری بعض بہنیں اس مغالطے میں مبتلا ہو گئی ہیں یا کر دی گئی ہیں کہ یہ تو نبی اکرم  کی بیویوں سے متعلق احکام ہیں‘ یہاں عام مسلمان خواتین سے تو بات نہیں ہو رہی. یہ بات ان کی غلط فہمی اور مغالطے کا بہت بڑا سبب بن گئی ہے‘ لہذا اس بات کی ذہن میں تصحیح ہونی چاہیے کہ قرآن مجید میں یہ اسلوب کیوں ہے! یہ اس لیے ہے کہ ازواج ِمطہرات کو مسلمان خواتین کے لیے آئیڈیل بننا ہے اُن تمام معاملات میں جو صرف خواتین سے متعلق اور ان کے لیے مخصوص ہیں ورنہ بحیثیت ِمجموعی آئیڈیل‘ اُسوۂ حسنہ اور کامل نمونہ تو جناب محمد رسول اللہ  کی ذاتِ اقدس ہے. یہی وجہ ہے کہ سورۃ الاحزاب کی آیت ۳۲ میں خطابیٰنِسَآءَ النَّبِیِّ سے ہوتا ہے جو آیت ۳۳ کے اختتام تک چلتا ہے. یہ دونوں آیات آج کے موضوع کے لیے بمنزلہ کلید ہیں. فرمایا: 

یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسۡتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَیۡتُنَّ فَلَا تَخۡضَعۡنَ بِالۡقَوۡلِ فَیَطۡمَعَ الَّذِیۡ فِیۡ قَلۡبِہٖ مَرَضٌ وَّ قُلۡنَ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا ﴿ۚ۳۲﴾وَ قَرۡنَ فِیۡ بُیُوۡتِکُنَّ وَ لَا تَبَرَّجۡنَ تَبَرُّجَ الۡجَاہِلِیَّۃِ الۡاُوۡلٰی وَ اَقِمۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتِیۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ اَطِعۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ ؕ اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمۡ تَطۡہِیۡرًا ﴿ۚ۳۳﴾ 

’’نبی ( ) کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو‘ اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو نرم اور شیریں انداز سے بات نہ کیا کرو‘مبادا دل کی خرابی میں مبتلا کوئی شخص (منافق) لالچ میں پڑ جائے‘بلکہ صاف سیدھی بات کرو. اور اپنے گھروں میں ٹک کر رہو اور سابق دورِ جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو. نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور اللہ اور اُس کے رسول ؐ کی اطاعت کرو. اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم اہل بیت ِنبیؐ سے گندگی کو دور کرے اور تمہیں پاک کر دے‘جیسا کہ تمہیں ہونا چاہیے.‘‘