سے‘ اور پہلی بات یہ فرمائی گئی ہے : 

لَسۡتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ .... 
’’تم عام عورتوں کی مانند نہیں ہو …‘‘

غور کیجیے کہ محض ’’عورت‘‘ ہونے کے ناطے سے ازواجِ مطہرات اور دوسری عورتوں میں کیا فرق ہے! اس اعتبار سے تو سب عورتیں برابر ہیں. فرق اور امتیاز ہے تو یہ کہ وہ نبی مکرم کی بیویاں ہیں‘ اور جس طرح آنحضور  اہل ایمان کے لیے اُسوۂ کاملہ ہیں اسی طرح خواتین کے مخصوص امور میں ان ازواجِ مطہرات ہی 
کو نمونہ بننا ہے‘ لہذا ان کو جو خصوصی احکام دیے جا رہے ہیں اُن کی غایت یہی ہے کہ اُن کے مطابق عمل کر کے ازواج ِنبیؐ تا قیامِ قیامت تمام مسلم خواتین کے لیے ایک آئیڈیل خاتون اور مثالی بیوی کا نمونہ بن جائیں. اسی لیے اسی سورۃ الاحزاب کی آیت ۳۱میں جو آیت زیر گفتگو سے متصلاً قبل آئی ہے‘ازواج ِ مطہرات کو اُن کے نیک اعمال پر دوہرے اجر کی بشارت دی گئی ہے:

وَ مَنۡ یَّقۡنُتۡ مِنۡکُنَّ لِلّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تَعۡمَلۡ صَالِحًا نُّؤۡتِہَاۤ اَجۡرَہَا مَرَّتَیۡنِ...
’’اور تم میں سے جو اللہ اور اس کے رسول ( ) کی اطاعت کرے گی اور نیک عمل کرے گی اُس کو ہم دوہرا اجر دیں گے …‘‘

اور آیت ۳۰ میں اُن کی لغزش پر دوہرے عذاب کی وعید سنائی گئی ہے. یہ بھی اس لیے کہ ازواج ِ مطہرات کو اُسوہ اور نمونہ بننا ہے. لہذا ان کی عزیمت اور ان کی نیکی بہت سی خواتین کے لیے اس راہ پر چلنے کا سبب بنے گی اور ان کی معمولی سی لغزش بھی بہت سی عورتوں کی لغزش کا باعث بن جائے گی. ورنہ یہ احکام تمام مسلم خواتین کے لیے بھی ہیں. اس کی ایک دلیل میں دے چکا ہوں‘ ایک اور دلیل میں آگے بیان کروں گا‘ نیز آپ کو یہ بھی بتاؤں گا کہ عام مسلم خواتین کے لیے بھی یہی ہدایات دوسرے اسالیب سے قرآن مجید میں نازل ہوئی ہیں اور ان ہی احکام کی تشریح وتوضیح میں نبی اکرم  نے بھی تاکیدی احکام دیے ہیں.