آگے فرمایا:

.....اِنِ اتَّقَیۡتُنَّ فَلَا تَخۡضَعۡنَ بِالۡقَوۡلِ فَیَطۡمَعَ الَّذِیۡ فِیۡ قَلۡبِہٖ مَرَضٌ وَّ قُلۡنَ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا ﴿ۚ۳۲
’’(اے نبی کی بیبیو!) اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو شیریں اور لوچ دار انداز سے بات نہ کیا کرو‘ مبادا جس کے دل میں (نفاق کا) روگ ہے وہ کوئی غلط توقع کر بیٹھے‘ بلکہ صاف سیدھی بات کرو.‘‘

اس ہدایت کی حکمت کو اچھی طرح سمجھ لیجیے. یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ عورت کی آواز میں بھی نسوانی حسن اور دلربائی کا وصف خالق وفاطر کی طرف سے ودیعت کیا گیا ہے. اس میں ایک جاذبیت اور کشش رکھی گئی ہے. اس میں بہت سی حکمتیں ہیں‘ لیکن یہی گفتگو کا شیریں اور لوچ دار انداز بہت سے فتنوں کا ذریعہ بنتا ہے. اکثر اوقات اس میں کوئی برا جذبہ نہیں ہوتا‘ لیکن آواز میں حلاوت‘ لہجے میں لگاوٹ اور باتوں میں گھلاوٹ سے شیطان فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے اور دل کے چھپے ہوئے چور کو شہ دیتا ہے. قرآن اس چور کا سر کچلنے کے لیے ہدایت دیتا ہے کہ ضرورت پیش آنے پر کسی نا محرم مرد سے بات تو کی جا سکتی ہے‘ لیکن اس موقع پر اندازِ گفتگو ایسا نہ ہو کہ جس کے دل میں مرض ہے‘ جس سے نفاق کا روگ بھی مراد لیا جا سکتا ہے اور نفسیاتی بھی‘ وہ خوا مخواہ دل میں کوئی غلط توقع پال لے اور کوئی طمع جگا لے. لہذا ایسے مواقع پر آواز میں کرخت انداز پسندیدہ ہے. ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا گیا کہ بات بھی سیدھی کرو‘ اس میں بلا ضرورت نہ طوالت ہو نہ اینچ پینچ ہو. یہ ہدایات جہاں ازواج ِ مطہرات کے لیے ہیں وہاں تمام خواتین کے لیے بھی ہیں. اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیجیے! (۱