اگلی آیت میں فرمایا:

وَ قَرۡنَ فِیۡ بُیُوۡتِکُنَّ وَ لَا تَبَرَّجۡنَ تَبَرُّجَ الۡجَاہِلِیَّۃِ الۡاُوۡلٰی 

’’اور پنے گھروں میں قرار (وقار اور سکینت) کے ساتھ رہو‘اور جیسے بن سنور کر ایام جاہلیت میں عورتیں گھروں سے نمائش کے لیے نکلا کرتی تھیں ایسے نہ نکلو!‘‘ (۱) تفہیم القرآن میں سورۃ الاحزاب کی اس آیت کے اس حصے کی تفسیر کرتے ہوئے مولانا ابو الاعلیٰ مودودی مرحوم ومغفور نے حاشیہ میں جو کچھ تحریر فرمایا ہے اس میں تمام مسلمان بھائیوں اور بہنوں کے لیے بڑا سبق ہے. سید مودودیؒلکھتے ہیں: (باقی حواشی اگلے صفحہ پر) یہاں لفظ ’’قرن‘‘ استعمال ہوا ہے. بعض اہل لغت نے اس کو ’’قرار‘‘ سے اور بعض نے ’’وقار‘‘ سے ماخوذ بتایا ہے. قرار پکڑنے کے معنی ہوں گے ٹک کر رہو‘ اور وقار کا مطلب ہو گا سکون سے رہو‘ چین سے بیٹھو. دونوں صورتوں میں آیت کا یہ منشا بالکل واضح‘ مبرہن اور ظاہر ہے کہ عورت کا اصل دائرۂ عمل اُس کا گھر ہے. یہاں کسی اِبہام کے بغیر عورتوں کے لیے لائحہ عمل متعین کر دیا گیا اور ہدایت دے دی گئی ہے کہ عورت کی تمدنی ذمہ داریوں کا دائرۂ کار در اصل اُس کا گھر ہے.

وہ اس میں قیام کریں‘ قرار پکڑیں. یہاں اوّلین رہنما اصول (directive principle) مقرر کر دیا گیا ہے. (۱’’اب ذرا سوچنے کی با ت یہ ہے کہ جو دین عورت کو غیر مرد سے بات کرتے ہوئے بھی لوچ دار اندازِ گفتگو اختیارکرنے کی اجازت نہیں دیتا اور اسے مردوں کے سامنے بلاضرورت آواز نکالنے سے روکتا ہے‘ کیا وہ کبھی اس کو پسند کر سکتا ہے کہ عورت اسٹیج پر آکر گائے‘ ناچے‘ تھرکے‘ بھاؤ بتائے اور ناز ونخرے دکھائے! کیا وہ اس کی اجازت دے سکتا ہے کہ ریڈیو پر عورت عاشقانہ گیت گائے اور سریلے نغموں کے ساتھ فحش مضامین سنا سنا کر لوگوں کے جذبات میں آگ لگائے؟ کیا وہ اسے جائز رکھ سکتا ہے کہ ڈراموں میں کبھی کسی کی بیوی اور کبھی کسی کی معشوقہ کا پارٹ کریں؟ یا ہوائی میزبان (Air Hostess) بنائی جائیں اور انہیں خاص طور پر مسافروں کا دل لبھانے کی تربیت دی جائے؟ یا کلبوں اور اجتماعی تقریبات اور مخلوط مجالس میں بن ٹھن کر آئیں اور مردوں سے خوب گھل مل کر بات چیت اور ہنسی مذاق کریں؟‘‘

موجودہ ’’ ترقی یافتہ‘‘ دور کے پیش نظر راقم یہاں مزید یہ عرض کرنے کی جسارت کر رہا ہے کہ ان صاف اور صالح تعلیمات وہدایات اور احکامات کے بعد بھی کیا اس کا کوئی ادنی ٰ سا جواز ہے کہ ٹیلی ویژن پر عام پروگراموں اور اکثر خبر ناموں کی اناؤنسرز خواتین کو بنایا جائے؟ (مرتب)

(۱) امام بخاریؒ نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے کہ ’’اس حکم وَ قَرۡنَ فِیۡ بُیُوۡتِکُنَّ کے بعد ایک رات کو اُمّ المؤمنین حضرت سودہ ؓ گھر سے باہر جا رہی تھیں‘ راستے میں حضرت عمرؓ نے دیکھ لیا اور کہا: اے سودہؓ ! میں نے آپ کو پہچان لیا‘ آپ خود کو نہ چھپا سکیں. وہ آنحضرت  کے پاس گئیں اور یہ ماجرا آپؐ سے بیان کیا. اُس وقت آپؐ پر وحی نازل ہوئی. اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے تم کو (یعنی عورتوں کو) اپنے کام کاج کے لیے باہر نکلنے کی اجازت دی‘‘. وحی نے جن شرائط کے ساتھ یہ اجازت دی ہے وہ اسی سورۃ الاحزاب کی آیت ۵۹ میں مذکور ہے جس پر محترم ڈاکٹر صاحب کی گفتگو آگے آئے گی. (مرتب) یہ ہے اسلام میں عورت کا اصل مقام.