ٓ اگرچہ نا گزیر تمدنی ضروریات کے لیے بعض شرائط کے ساتھ گھر سے نکلنے کی اجازت دی گئی ہے‘ جس کو میں قرآن مجید کے حوالے سے آگے بیان کروں گا‘ آیت زیر گفتگو کے بین السطور بھی باہر نکلنے کی اجازت موجود ہے‘ لیکن یہاں ایک شرط عائد کی گئی ہے. وہ شرط تبرج اور خاص طور پر ’’ تَبَرُّجَ الۡجَاہِلِیَّۃِ الۡاُوۡلٰی ‘‘ کے ساتھ نکلنے کی ممانعت کی شرط ہے. عربی میں تبرّج کے معنی نمایاں ہونے‘ ابھرنے اور کھل کر سامنے آنے کے ہیں. عورت کے لیے یہ لفظ اپنے چہرے اور اپنے جسم کی سج دھج‘ آرائش وزیبائش‘ سنگھار اور اپنی چال ڈھال میں لوچ اور چٹک مٹک کے ذریعے اپنے آپ کو نمایاں کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے. تمام اہل لغت اور اکابر مفسرین نے اس لفظ کی یہی تشریح کی ہے. اب رہا جاہلیت کے مفہوم کا تعین تو جان لیجیے از روئے اسلام جاہلیت سے مراد ہر وہ طرزِ عمل‘ ہر وہ روش‘ ہر وہ چلن‘ ہر وہ رواج اور ہر وہ رسم ہے جو اسلام کی تعلیم‘ اس کی تہذیب‘ اس کی ثقافت اور اس کے اخلاق وآداب کے خلاف ہو اور جاھلیۃ الاولٰی کا مطلب وہ تمام عیوب اور برائیاں ہیں جن میں ظہورِ اسلام اور بعثت ِ نبوی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام سے قبل اہل عرب اور دنیا بھر کے لوگ مبتلا تھے. چنانچہ یہاں بظاہر ازواجِ مطہرات سے خطاب ہے اور ان کو تَبَرُّجَ الۡجَاہِلِیَّۃِ الۡاُوۡلٰی سے منع کیا جارہا ہے‘ لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا چونکہ ان امہات المؤمنین کو تمام مسلمان خواتین کے لیے اُسوہ بننا ہے‘ لہذا ان کے توسط سے تمام خواتین کو ہدایت فرمائی جا رہی ہے کہ تمہارا اصل مقام تو گھر ہی ہے‘ لیکن اگر کسی تمدنی ضرورت سے گھر سے باہر نکلنا ہی ہو تو جاہلیت ِ اولیٰ کی طرح بن سنور کر اور زیب وزینت کے ساتھ نکلنے کی ہرگز ہرگز اجازت نہیں ہے . اس آیت مبارکہ کا اگلا حصہ وَ اَقِمۡنَ الصَّلٰوۃَ ..... الخ بہت واضح ہے. وقت کی کمی کی وجہ سے اس کی تشریح وتوضیح کو چھوڑ رہا ہوں.