اب آگے چلیے! اسی سورۃ الاحزاب کی آیت ۵۳ میں مسلمان مردوں کے لیے حکم نازل کیا جا رہا ہے: 

وَ اِذَا سَاَلۡتُمُوۡہُنَّ مَتَاعًا فَسۡـَٔلُوۡہُنَّ مِنۡ وَّرَآءِ حِجَابٍ ؕ 

’’اور (اے مسلمانو!) اگر تمہیں نبی ( ) کی بیویوں سے کوئی چیز مانگنی ہو تو پردے کی اوٹ سے مانگو‘‘. (۱)

ہمارے علومِ فقہ میں یہ آیت ’’ آیت ِحجاب‘‘ کے نام سے مشہور ومعروف ہے. جس طرح بعض آیات کے نام مخصوص ہو گئے ہیں اسی طرح اس کا نام ’’ آیت ِحجاب‘‘ مخصوص ہو گیا ہے. جو بہنیں اخبارات میں مراسلات و مضامین لکھ رہی ہیں (۱) مولانا سید مودودیؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’بخاری میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس آیت کے نزول سے پہلے متعدد مرتبہ عرض کر چکے تھے کہ: یارسول اللہ! آپ کے ہاں بھلے اور برے سب ہی قسم کے لوگ آتے ہیں. کاش آپؐ اپنی ازواج ِمطہرات کو پردہ کرنے کا حکم دیتے ایک اور روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ازواج ِرسولؐ سے کہا: ’’اگر آپ کے حق میں میری بات مانی جائے تو کبھی میری نگاہیں آپ کو نہ دیکھیں‘‘.

لیکن رسول اللہ  چونکہ خود مختار نہ تھے، اس لیے آپؐ اشارۂ الٰہی کے منتظر رہے. آخرکار یہ حکم آ گیا… اس حکم کے بعد ازواج ِمطہرات کے گھروں میں دروازوں پر پردے لٹکا دیے گئے اور چونکہ حضور کا گھر تمام مسلمانوں کے لیے نمونے کا گھر تھا‘ اس لیے تمام مسلمانوں کے گھروں پر بھی پردے لٹک گئے…‘‘ سید مودودیؒ آگے لکھتے ہیں کہ ’’جو کتاب مردوں کو عورتوں سے رو در رو بات کرنے سے روکتی ہے اور پردے کے پیچھے سے بات کرنے میں مصلحت یہ بتاتی ہے کہ ’’تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے یہ طریقہ زیادہ مناسب ہے‘‘ ان واضح ہدایات و اَحکام کے بعد آخر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ مخلوط مجالس اور مخلوط تعلیم اور جمہوری ادارات اور دفاتر میں مردوں اور عورتوں کا بے تکلف ماحول بالکل جائز ہے اور اس سے دلوں کی پاکیزگی میں کوئی فرق نہیں پڑتا!‘‘ (مرتب) کہ لفظ ’’حجاب‘‘ قرآن میں کہیں نہیں آیا‘ وہ غور کریں کہ آخر ’’مِنۡ وَّرَآءِ حِجَابٍ ‘‘ (پردے کی اوٹ) سے کیا مراد ہے‘ اور یہ حکم کیا ظاہر کر رہا ہے؟ دُو بدو اور بے حجابانہ گفتگو کرنے میں اگر کوئی مضائقہ نہیں ہے تو اس حکم کا منشا ومطلب کیا متعین ہو گا؟ پھر اہم بات نوٹ کیجیے کہ جن سے پردے کی اوٹ سے کوئی چیز مانگنے کا مسلمانوں کو حکم دیا جا رہا ہے وہ اُمہات المؤمنین ہیں‘ پوری امت کے لیے مائیں ہیں‘ جن کے متعلق اسی آیت کے اگلے حصے میں آنحضور  کے انتقال کے بعد اُن سے نکاح کی ہمیشہ کے لیے ممانعت کی گئی ہے کہ وَ لَاۤ اَنۡ تَنۡکِحُوۡۤا اَزۡوَاجَہٗ مِنۡۢ بَعۡدِہٖۤ اَبَدًا ؕ ’’اور یہ جائز نہیں ہے کہ تم ان (رسول ) کے بعد کبھی بھی ان کی بیویوں سے نکاح کرو.‘‘ 

اس سے قبل اسی آیت میں وَ اِذَا سَاَلۡتُمُوۡہُنَّ مَتَاعًا فَسۡـَٔلُوۡہُنَّ مِنۡ وَّرَآءِ حِجَابٍ ؕ کے حکم کے بعد اس کی غایت بھی بیان فرما دی گئی تھی کہ ’’یہ طریقہ تمہارے دلوں کے لیے بھی زیادہ پاکیزگی بخش ہے اور ان (ازواجِ مطہرات) کے دلوں کے لیے بھی‘‘. ذٰلِکُمۡ اَطۡہَرُ لِقُلُوۡبِکُمۡ وَ قُلُوۡبِہِنَّ ؕ غور کیجیے کہ اُمہات المؤمنین کے متعلق کس کے دل میں برا خیال پیدا ہو سکتا ہے؟ ان صالحات ومطاہرات ازواج النبیؐکے متعلق یہ گمان دُور از کار ہے. اس کے باوجود پہلے تو آیت ۳۲ میں ازواج ِمطہرات کو شیریں اور لوچ دار لہجے میں بات کرنے سے منع کیا گیا‘پھر اس آیت ِحجاب میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ اپنی دینی اور روحانی ماؤں سے کوئی چیز مانگو تو پردے (حجاب) کی اوٹ سے مانگو. یہ اسلوب اس بات پر صریح دلالت کر رہا ہے کہ یہ تمام مسلمان خواتین وحضرات کے لیے مستقل ہدایت ہے. اسلام کے معاشرتی نظام میں صالح اَقدار کے فروغ کے لیے یہی پاکیزہ طرزِ عمل ہے‘ خواتین کے لیے بھی اور مردوں کے لیے بھی. 

ان اَحکام کی حکمتوں پر غور کیجیے. اللہ تعالیٰ فاطر فطرت ہے‘وہ جانتا ہے کہ مرد اور عورت کے مزاج‘ ان کے میلانات اور رجحانات کیا ہیں! ہم لاکھ پردے ڈالیں‘ ملمع سازی کریں‘ تہذیب و تمدن کے تقاضوں کو بہانہ بنائیں‘ لیکن مرد میں عورت کے لیے جاذبیت‘ کشش اور نفسانی خواہش کا جو داعیہ رکھا گیا ہے اسے اس داعیہ کو رکھنے والے سے زیادہ جاننے والا اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا. اس لیے وہ فاطر ِ فطرت گفتگو میں لوچ دار انداز اختیار کرنے سے منع فرما رہا ہے اور شدید ضرورت کے تحت کوئی چیز مانگنے یا بات چیت کرنے کی صورت میں پردے کی اوٹ مِنۡ وَّرَآءِ حِجَابٍ (۱کا حکم دے رہا ہے. ساتھ ہی اس کی حکمت بھی بیان فرما رہا ہے کہ: ذٰلِکُمۡ اَطۡہَرُ لِقُلُوۡبِکُمۡ وَ قُلُوۡبِہِنَّ ؕ .